Walid Ka Sahib e Nisab Baligh Aulad ki Taraf Se Qurbani Karna

والد کا اپنی صاحبِ نصاب بالغ اولاد کی طرف سے قربانی کرنے کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Book-158

تاریخ اجراء:11محرم الحرام1437ھ/13اکتوبر 2016ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص جس کی بالغ اولاد صاحب نصاب بھی ہے، تو اس صورت میں والد اپنی بالغ اولاد کی طرف سے  قربانی کرسکتا ہے یا نہیں؟ سائل :راشد حسین(فیصل آباد)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جبکہ اولاد بالغ اور صاحب نصاب ہے، تووالد کواپنی بالغ اولاد کی طرف سے قربانی کرنے کے لیے ان کی اجازت ضروری ہے، البتہ اگروالد کی بالغ اولاد اسی کی پرورش میں تھی  اور والد  نے ان کی اجازت کے بغیر قربانی کردی، تودلالۃًاجازت ہونےکی وجہ سےوالد کا بالغ اولاد کی طرف سے قربانی کرنا استحساناًجائز ہے۔ چنانچہ درمختار میں بیوی بچوں کی جانب سے قربانی کرنے کے بارے میں ہے: ”لا عن زوجتہ وولدہ الکبیر العاقل و لوادی عنھما بلا اذن اجزأاستحسانا للاذن عادۃ ای لو فی عیالہ والا فلا“یعنی: بیوی اور عاقل بالغ بیٹے کی طرف سے اس پر واجب نہیں اور اگر ان دونوں کی طرف سے اجازت کے بغیر اد کردے تو استحساناًجائز ہے عادۃً اجازت کی وجہ سے یعنی جب عاقل بالغ بیٹا اس کی عیال میں شامل ہو اور  اگر عیال میں نہ ہو، تو  اجازت کے بغیر جائز نہیں۔(درمختارمع رد المحتار، ج3، ص370، مطبوعہ کوئٹہ)

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن دوسرے کی جانب سے قربانی کرنے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں ”قربانی وصدقہ فطر عبادت ہے اور عبادت میں نیت شرط ہے، تو بلااجازت ناممکن ہے۔ ہاں اجازت کے لیے صراحۃ ہونا ضروری نہیں دلالت کافی ہے۔ مثلا زید اس کے عیال میں ہے اس کا کھانا پہننا سب اس کے پاس سےہوتاہے۔ یا یہ اس کا وکیل مطلق ہے۔ اس کے کاروبار یہ کیا کرتاہے۔ ان صورتوں میں ادا ہوجائے گی۔“(فتاوی رضویہ، ج20، ص453، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم