باپ سے پہلے بیٹے کا حج نیز بیوی کے پیسوں سے حج کا حکم

والد نے حج نہ کیا ہو، تو بیٹے کے حج کا حکم نیز بیوی کے پیسوں سے شوہر کا حج کرنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد صاحب اور میری ملکیت میں اتنا مال نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ہم پر حج فرض ہو۔ میری زوجہ مالدار ہیں، ان پر حج فرض ہے اور ان کے پاس اتنا مال مزید بھی ہے کہ وہ کسی مَحرم وغیرہ کو اپنے ساتھ حج کے لیے لے جا سکتی ہیں۔ تو میرے سارے اخراجات میری بیوی برداشت کر رہی ہیں اورہم دونوں حج پر جارہے ہیں۔ کچھ سوالات درپیش ہیں جن کے جوابات عطا فرما دیجیے۔

(1) اگر میں اپنی بیوی کے اخراجات سے حج کروں، تویہ جائز ہے یا نہیں؟

(2) میرا یہ حج فرض ادا ہوگا یا نفل؟

(3) بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب تک والد نے حج نہ کیا ہو، تو بیٹے کا حج ادا نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے بھی رہنمائی فرما دیں کہ میرے والد صاحب نے حج نہیں کیا ہوا، تو کیا میرا حج ادا ہوجائے گا یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

(1)پوچھی گئی صورت میں آپ کا اپنی بیوی کے خرچے پر حج کرنا بالکل جائز ہے اور بیوی کا یہ خرچ کرنا بھی جائز، بلکہ عورت کے پاس اگر اتنی مالی گنجائش موجود ہو کہ خود اپنا اور اپنے محرم کا خرچ اٹھا سکتی ہے اور کوئی مَحرم یا شوہر اپنے خرچے پر جانے کے لیے تیار نہیں ہے، تو ایسی صورت میں عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنا اور اپنے مَحرم کا خرچہ اٹھائے اورفرض حج کی ادائیگی کرے۔

تنویرالابصاراوراس کی شرح درّمختارمیں ہے:

’’و مع زوج او محرم بالغ عاقل غیر مجوسی ولا فاسق مع وجوب النفقۃ لمحرمھا علیھا‘‘

ترجمہ: عورت پر حج کی ادائیگی لازم ہونے کے لیے اس کے ساتھ شوہر یا عاقل بالغ غیر مجوسی، غیر فاسق محرم کا ہونا اور اس مَحرم کے اخراجات پر قادر ہونا بھی شرط ہے۔

اس کےتحت فتاوی شامی میں ہے:

’’ای فیشترط ان تکون قادرۃ علی نفقتھا و نفقتہ‘‘

ترجمہ: یعنی: یہ شرط ہے کہ عورت اپنےاورمَحرم دونوں کےخرچےپرقادر ہو۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 3، صفحہ 464، مطبوعہ کوئٹہ)

علامہ ملاّعلی قاری علیہ الرحمۃ لکھتے ہے:

’’و فی منسک ابن امیر الحاج: و ھل یجب علیھا نفقۃ المحرم و القیام براحلتہ؟ اختلفوا فیہ و صححوا عدم الوجوب و فی السراج الوھاج التوفیق بین قول من یوجب علیھا نفقۃ المحرم و بین قول من لایوجب ان المحرم اذا قال: لا اخرج الا بالنفقۃ وجب علیھا النفقۃ بالاجماع و اذا خرج من غیر اشتراط ذلک لم یجب، انتھی و ھو تفصیل حسن‘‘

ترجمہ: منسک ابن امیر الحاج میں ہے کہ کیا عورت پرمحرم کا اور اس کی سواری کا بندوبست کرنا واجب ہے؟ اس میں فقہاء کا اختلاف ہے اور انہوں نے عدمِ وجوب کی تصحیح کی ہے اور سراج الوھاج میں ہے: ان علماء کے قول''جو محرم کے نفقہ کو واجب قرار دیتے ہیں'' اوران علماء کے قول ''جومحرم کے نفقہ کو عورت پر واجب قرار نہیں دیتے'' اس میں تطبیق یہ ہے کہ جب محرم کہے کہ میں بغیر نفقہ کے نہیں چلوں گا، تو بالاجماع اس عورت پر اس کا نفقہ واجب ہے اور جب بغیر اس شرط کے نکلے تو اس عورت پر نفقہ واجب نہیں ہے۔ (عبارت ختم) یہ اچھی تفصیل ہے۔ (المسلک المتقسط، صفحہ 62، 63، دار الکتب العلمیہ بیروت)

(2) اس بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ ایسا شخص جس پر حج فرض نہ ہو اوروہ فرض حج،یا مطلق حج کی نیت سےحج کرلے، تو یہ اس کی طرف سے فرض ہی ادا ہوگا،اس صورت میں اگر بعد میں وہ استطاعت والا ہوجاتا ہے، تب بھی اس پر دوبارہ حج فرض نہیں ہوگااور اگر وہ نفل کی نیت سے حج کرے گا، تو پھر یہ اس کی طرف سے نفلی حج ہوگا اور ا ٓئندہ استطاعت ہونے کی صورت میں دوبارہ حج کرنا اس پر فرض ہوجائے گا، لہٰذا جب آپ کوموقع مل رہاہے، توآپ فرض حج کی نیت سے ہی حج اداکریں، تاکہ فرض ادا ہو جائے۔

علامہ ملا علی قاری علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

’’السادس: الاستطاعۃ و ھی شرط الوجوب لا شرط الجواز، و الوقوع عن الفرض، حتی لوتکلف الفقیر و حج و نوی حج الفرض او اطلق جاز لہ، و سقط عنہ فرضہ‘‘

ترجمہ:چھٹی شرط استطاعت(طاقت) ہے اور یہ وجوب کی شرط ہے، حج کے درست اور حج کے فرض واقع ہونے کی شرط نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر فقیر تکلّف کر کے مکے پہنچ جائے اور حج کرلے اور فرض حج کی نیت کرلے یا مطلق نیت کرلے تو اس کا حج درست ہے اور اس کا فرض اس سے ساقط ہوجائے گا۔ (مناسک ملا علی قاری، صفحہ 44، مطبوعہ بیروت)

 مزید اسی میں ہے:

’’و (اما الفقیر) ای الحقیقی و ھو من لیس لہ مال (و بمن معناہ)ای کمن لہ مال لکنہ مستغرق بالدیون (اذاحج سقط عنہ الفرض ان نواہ) ای الفرض فی احرام حجہ (او اطلق النیۃ)ای و ان لم یقید بکونہ نفلااونذرا(حتی لو استغنی )ای صار غنیا بحصول المال من الوجہ الحلال (بعد ذالک) ای بعد ادائہ الحج بغیر استطاعۃ (لایجب علیہ ثانیا) ای فی المال‘‘

ترجمہ: فقیریعنی حقیقی فقیروہ کہ جس کے پاس مال نہ ہواورجومعنا ًفقیر ہویعنی جس کے پاس مال تو ہو، لیکن قرض میں مستغرق ہو، جب وہ احرام میں فرض حج کی نیت کرے تو فرض حج ساقط ہوجائے گایا نیت کو مطلق رکھا ہواور نفل یا نذر کے ساتھ مقید نہ کیا ہو یہاں تک کہ اگروہ بعدمیں مالِ حلال ملنے کی وجہ سے مال دارہوگیا، تو اس پر دوسری مرتبہ اپنے مال سے حج کرنا واجب نہیں ہوگا۔ (مناسک ملا علی قاری،صفحہ 70، مطبوعہ بیروت)

بہارِشریعت میں ہے: ”میقات سے باہر کا رہنے والا جب میقات تک پہنچ جائے اور پیدل چل سکتا ہو، تو سواری اُس کے لیے شرط نہیں، لہٰذا اگرفقیر ہو جب بھی اُسے حجِ فرض کی نیت کرنی چاہیے، نفل کی نیت کرےگا، تو اُس پر دوبارہ حج کرنا فرض ہوگا اور مطلق حج کی نیت کی یعنی فرض یا نفل کچھ معین نہ کیا، تو فرض ادا ہوگیا۔“ (بھارِ شریعت، جلد 1، صفحہ 1041، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

(3) آپ کے والد صاحب کے حج نہ کرنے کی وجہ سے آپ کے حج پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، بلکہ آپ کا حج درست ادا ہوجائے گا، عوام الناس کا یہ سمجھنا غلط ہے کہ جب تک والد حج نہ کرلے، بیٹے کا حج نہیں ہوتا۔ حج عبادت ہے اور ایک عظیم فریضہ ہے، تو جس طرح دیگر عبادات ایک دوسرے پر موقوف نہیں ہیں، اسی طرح حج بھی کسی دوسرے کے کرنے یا نہ کرنے پر موقوف نہیں ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا عجیب دستور بنتا جا رہا ہے کہ والد نے حج نہ کیا ہو، تو بیٹا بھی حج کے لیے نہیں جاتا، بلکہ بعض تو حج فرض ہونے کی صورت میں بھی اس وجہ سے نہیں جاتے کہ والدین نے نہیں کیا ہوا اور یوں وہ مسلسل حج کو مؤخر کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ دنیا سے ہی رخصت ہوجاتے ہیں، حالانکہ حج فرض ہونے کےبعد بلا وجہ شرعی اس میں تاخیر کرنا شرعاً ناجائز وگناہ ہے۔

استطاعت ہونے کے باوجود حج نہ کرنے والے کے بارے میں حدیث پاک میں ارشاد فرمایا ہے:

’’من ملک زادا و راحلۃتبلغہ الی بیت اللہ و لم یحج فلا علیہ ان یموت یھودیا او نصرانیا و ذلک ان اللہ یقول فی کتابہ ﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً﴾‘‘

ترجمہ: جو زاد راہ اور سواری کا مالک ہوا، جو اسے بیت اللہ تک پہنچا دے اور اس نے حج نہ کیا، تواس کی پرواہ نہیں،چاہے وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔ یہ اس لیے کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے: اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرناہے، جو اس تک چل سکے۔ (جامع الترمذی، جلد 1، صفحہ 100، مطبوعہ ملتان)

حج فرض ہونے کے بعد تاخیر کرنے والے کے لیے حکم شریعت بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’جب حج پر جانے کے لیے قادر ہو، حج فوراً فرض ہوگیا یعنی اسی سال میں اور اب تاخیر گناہ ہے اور چند سالوں تک نہ کیا، تو فاسق ہے اور اس کی گواہی مردود، مگر جب کرے گا ادا ہی ہے، قضا نہیں۔‘‘ (بھار شریعت، جلد 1، حصہ 6، صفحہ 1036، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابوحذیفہ محمدشفیق عطاری مدنی

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Book-193

تاریخ اجراء: 19 شوال المکرم 1443 ھ/21 مئی 2022 ء