بغیر وضو طواف کرنے کے بعد وطن واپس آگئے تو کیا حکم ہے؟

بغیر وضو طواف کیا اور اب وطن واپس آچکا ہے، تو کیا حکم ہے؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ  اگر کوئی شخص عمرہ کرنے گیا اور اُس نے بغیر وضو  عمرے کاطواف کر لیا اور اب وہ اپنے وطن واپس آ چکا ہے، اب اس کے لیے کیا شرعی حکم ہوگا؟اگر وہ دوبارہ عمرہ کے لیے جا رہا ہو، تو کیا وہ اُس طواف کو دوبارہ کر سکتا ہے یا اُس پر دم دینا ہی  لازم ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

طواف چاہے وہ کسی بھی قسم کا ہواس کے لیے طہارتِ حکمیہ یعنی وضو و غسل سے ہونا واجب ہوتا ہے، لہٰذا  جس شخص نے بے وضو حالت میں عمرے کا طواف کیا، تواس کا طواف تو  ادا ہوگیا،مگر   طواف میں واجب طہارت کو   ترک کرنے کی وجہ سے وہ   گنہگار ہوا،اور اب جبکہ  با وضو حالت میں اس طواف کا اعادہ  کیے بغیر  اپنے وطن واپس آگیا ،تو  اس پر ایک  دم لازم  ہوگیا، البتہ اگر وہ دوبارہ عمرے کے لیے جارہا ہو،تووہاں جاکر  سابقہ بے وضو کی حالت میں کیے گئے عمرے کے طواف کا وضو  کی حالت میں اعادہ کرسکتا ہے، اعادہ کرلینے کی وجہ سے  دم ساقط (ختم)ہوجائے گا،لیکن بہرحال اس پر توبہ لازم ہوگی۔

نجاست حکمیہ سے پاک ہونا طواف کے واجبات میں سے ہے،اگر کوئی  بے وضو  حالت میں طواف کرلے تو اس کا طواف اداہوجائے گا،لیکن ترک واجب کی وجہ سے گنہگار ہوگا،اور اب اس طواف کا اعادہ ،یا اعادہ  نہ کرنے کی صورت میں کفارہ لازم  ہوگا،چنانچہ جیسا کہ لباب المناسک اور اس کی شرح میں ہے:

’’(واجبات الطواف)أی الافعال التی یصح الطواف بدونھاوینجبر بالدم لترکھا۔۔۔(الاول: الطھارۃ عن الحدث الاکبر والاصغر)۔۔۔۔ثم اذاثبت أن الطھارۃ عن النجاسۃ الحکمیۃ واجبۃ فلو طاف معھا یصح عندنا وعند احمدولم یحل لہ ذلک ویکون عاصیا،ویجب علیہ الاعادۃ أو الجزاء ان لم یعد  وھذ الحکم فی کل واجب ترکہ“

 ترجمہ: طواف کے واجبات  یعنی وہ افعال جن کے بغیر طواف صحیح ہوجاتا ہے،اور اس کے ترک کی وجہ سے دم کے ذریعے اس کی کمی کو پورا کیا جاتا ہے۔(ان واجبات میں سے)پہلا واجب :حدثِ اصغر (یعنی بے وضو ہونے) اور حدث اکبر (یعنی حیض ونفاس اور جنابت ) سےپا ک ہو نا ہے ۔۔۔پھر جب یہ  ثابت ہوگیا کہ نجاست حکمیہ سے پاک ہونا طواف میں واجب ہےتو اگر کسی نےا سی حالت میں طواف کرلیا،تو ہمارے اور امام احمد علیہ الرحمۃ کے  نزدیک طواف ادا ہوجائےگا،لیکن  اس کے لیے  اس حالت میں طواف  کرنا جائز  نہیں ہوگا اور وہ  گنہگار ہوگا،اور اس پر طواف کا اعادہ ،اور اعادہ نہ کرنے کی صورت میں کفارہ لازم ہوگا۔اور یہ اس ہر واجب کا حکم ہے جس کو ترک کیا ہو۔       (لبا ب المناسک مع شرحہ،باب انواع الاطوفۃ ، صفحہ213،مطبوعہ مکۃ المکرمہ )

بے وضو حالت میں  عمرے  کا طواف کرلینے  کی صورت میں ایک  دم لازم ہوتا ہے ،چنانچہ  ردالمحتار علی الدر المختار  او ر لباب المناسک  میں ہے:

 واللفظ للاول:’’ولو طاف للعمرۃ کلہ أو أکثرہ أو أقلہ ولو شوطا جنبا أو حائضا أو نفساء أو محدثا، فعلیہ شاۃ ۔ولا فرق فیہ أی فی طواف العمرۃبین القلیل و الکثیر والجنب والمحدث لأنه لا مدخل في طواف العمرة للبدنة ولا للصدقة ‘‘

ترجمہ:اگر کسی نے عمرے کے طواف کے تمام یا  اکثر یا اقل پھیرے  جنابت  یا حیض و نفاس یا بے وضو ہونے کی حالت میں کئے،تو ان تمام صورتوں میں اس پر  ایک بکری لازم ہوگی اور عمرے کے طواف میں تھوڑے اور زیادہ  پھیروں کا، اور جنبی اور بے وضو ہونے کی حالت میں کرنے کا کوئی فرق نہیں، (بہرصورت دم کا لازم ہونا  اس وجہ سے ہے)کیونکہ عمرے کے طواف میں بدنہ اور صدقہ کا کوئی دخل نہیں۔(رد المحتار علی الدر المختار،جلد3،باب الجنایات،صفحہ663،دارالمعرفہ،بیروت)

عمرے کا طواف مکمل یا اکثر پھیرے بے وضو یا جنابت کی حالت میں کئے تو اعادہ واجب ہے،اگر اعادہ کیے بغیر وطن لوٹ آیا،تو دم واجب ہوگا،چنانچہ البحر العمیق میں ہے:

’’واعلم انہ اذا طاف للعمرۃ جمیع الطواف أو اکثرہ جنباً أو محدثاً یجب علیہ  اعادتہ ،وان رجع الی اھلہ قبل الاعادہ فعلیہ دم ،کذا فی المرغینانی‘‘

ترجمہ:اور جان لو  کہ جب کسی نے عمرے کا پورا طواف یا اس کے اکثر پھیرے جنبی یا بے وضو ہونے کی حالت میں کئے تو اس پر اعادہ واجب ہے اور اگر وہ اعادہ کرنے سے پہلے  اپنے گھر لوٹ گیا تو اس پر دم لازم ہے،یونہی مرغینانی(یعنی ہدایہ)  میں ہے۔(البحر العمیق،صفحہ1134،مؤسسۃ الریان)

بے وضو عمرے کا طواف کرکے وضو کے ساتھ اس کا  اعادہ کرلیا، تو دم ساقط ہوجائے گا،چنانچہ الاختیار  لتعلیل المختار میں ہے:

’’ولو طاف للعمرة جنبا أو محدثا فعليه شاة؛ لأنه ركن فيها، وإنما لا تجب البدنة لعدم الفرضية ; ۔۔۔ ولو أعاد هذه الأطوفة على طهارة سقط الدم لأنه أتى بها على وجه المشروع فصارت جنايته متداركة فسقط الدم‘‘

ترجمہ:اور اگر عمرے کا طواف جنبی یا بے وضو ہونے کی حالت میں کیا،تو اس پر دم لازم ہے کیونکہ یہ عمرے میں رُکن ہے،اور اس کی فرض نہ ہونے کی وجہ سے بدنہ واجب نہیں؛اور اگر ان طوافوں کا طہارت کے ساتھ اعادہ کرلیا تو دم ساقط ہوجائے گا،کیونکہ اس نے اسے مشروع  طریقے پر کرلیا،تو اس کی جنایت کی تلافی ہوگئی لہذا دم ساقط ہوجائے گا۔(الاختیار لتعلیل المختار،جلد1،باب الجنایات،صفحہ162،مطبوعہ قاھرہ)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں لکھتے ہیں :’’فرض وغیرہ کوئی طواف ہوجِسے ناقص طورپر کیا کہ کفارہ لازم ہوا، جب کامل اعادہ کرلیا کفارہ اترگیا۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ761، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-762

تاریخ اجراء: 27 ذی القعدۃ الحرام1446ھ/25 مئی 2025ء