
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا بار بار عمرہ کرنے سے فرض حج ادا ہو جاتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جی نہیں! محض بار بار عمرہ کرنے سے فرض حج ادا نہیں ہوتا کیونکہ عمرہ اور حج دو الگ الگ عبادات ہیں، دونوں کے احکامات علیحدہ علیحدہ ہیں اور ادائیگی میں بھی کافی فرق ہے۔ حج صرف ایک بار زندگی میں صاحب استطاعت پر فرض ہوتا ہے اور وہ مخصوص ایام میں، مخصوص شرائط کے ساتھ، مخصوص ارکان کی ادائیگی کا نام ہے جبکہ عمرہ کرنا صاحبِ استطاعت کے لئےزندگی میں ایک بار سنتِ مؤکدہ ہے۔ نیز اس کا حج کی طرح کوئی مخصوص وقت نہیں (ہاں چندایام میں عمرہ کی ممانعت ہے توان میں عمرہ کرنے کی اجازت نہیں)، یونہی اس کے اور حج کے ارکان میں بھی فرق ہے، اس لیے عمرہ ،حج کا کسی صورت بدل نہیں ہو سکتا، خواہ کوئی ہزار بار عمرہ کر لے، اس سے اس کا حج ادا نہیں ہوتا۔ لہذا اگر کسی پر حج فرض ہو تو اس کے لیےبغیر عذرِ شرعی حج کو مؤخر کرنا یا اس کے بدلے عمرہ کرنا شرعاً درست نہیں ہو گا۔
مسند احمد بن حنبل میں ہے
"عن ابن عباس قال:قال رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم تعجَّلوا إلى الحج يعني الفريضة فان أحدكم لا يدري ما يعرض له"
ترجمہ: حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ رسول پاک صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: فرض حج ادا کرنے میں جلدی کیا کرو، کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ بعد میں اُسے کیا دشواری لاحق ہو جائے۔ (مسندِ احمد، مسند عبد اللہ بن عباس، جلد 5، صفحہ 58، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ)
اِس روایت کونقل کرنے کے بعد علامہ عبدالرؤف مناوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1031 ھ) لکھتے ہیں:
”ذهب أبو حنيفة إلى وجوب فوريته تمسّكا بظاهر هذا الخبر و لأنه لو مات قبله مات عاصيا“
ترجمہ: امام اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ اِس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فوراً حج کی ادائیگی کو لازم قرار دیتے ہیں، لہٰذا اگر حج کرنے سے پہلے مر گیا، تو گنہگار ٹھہرے گا۔ (فیض القدیر، جلد 3، صفحہ 250، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
تہذیب اللغۃ لابی منصور الہروی (متوفی 370ھ)میں ہے
”و الفرق بين الحج و العمرة أن العمرة تكون في السنة كلها، و الحج لا يجوز أن يحرم به إلا في أشهر الحج: شوال و ذي القعدة و عشر من ذي الحجة. و تمام العمرة أن يطوف بالبيت و يسعى بين الصفا و المرة، و الحج لا يكون إلا مع الوقوف بعرفة يوم عرفة“
ترجمہ: حج اور عمرہ میں فرق یہ ہے کہ عمرہ کی ادائیگی پورا سال ہو سکتی ہے جبکہ حج کا احرام صرف حج کے مہینوں میں ہی باندھا جا سکتا ہے اور حج کے مہینوں سے مراد شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجۃ کے پہلے دس دن ہیں، اور عمرہ سارے کا سارا یہ ہے کہ بیت اللہ کا طواف کیا جائے اور صفا و مروہ کی سعی کی جائے جبکہ حج، یومِ عرفہ کو وقوف عرفہ کے بغیر نہیں ہوتا۔ (تہذیب اللغۃ، ج 2، ص 233، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367 ھ/ 1947 ء) لکھتے ہیں: ”جب حج کے لیے جانے پر قادر ہو حج فوراً فرض ہوگیا یعنی اُسی سال میں اور اب تاخیر گناہ ہے اور چند سال تک نہ کیا تو فاسق ہے اور اس کی گواہی مردود مگر جب کرے گا، ادا ہی ہے، قضا نہیں۔‘‘ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 6، صفحہ 1036، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
صاحبِ استطاعت کے لئےزندگی میں ایک بارعمرہ کرنا سنتِ مؤکدہ ہے۔ حضرت علامہ علی بن سلطان القاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"العمرۃ سنۃ مؤکدۃ لمن استطاع"
یعنی صاحبِ استطاعت کے لئے عمرہ کرنا سنتِ مؤکدہ ہے۔ (فتح باب العنایۃ، جلد 1، صفحہ 616، مطبوعہ دار الارقم، بیروت)
تنویر الابصار و در مختار میں ہے
"(العمرۃ)فی العمر(مرۃ سنۃ مؤکدۃ) علی المذھب"
یعنی عمرہ زندگی میں ایک بار سنتِ مؤکدہ ہے۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے
"ای اذا اتی بھا مرۃ فقد اقام السنۃ غیر مقید بوقت غیر ماثبت النھی عنھا فیہ الا انھا فی رمضان افضل"
یعنی جب عمرہ ایک بار ادا کرلیا، تو سنت قائم ہوگئی یہ کسی وقت کے ساتھ مقید نہیں سوائے ان اوقات کے جن میں ممانعت ثابت ہے، ہاں عمرہ کرنا رمضان میں افضل ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 472، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3895
تاریخ اجراء: 06 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ /03 جون 2025 ء