گھر بنانے کی رقم یا پلاٹ کی وجہ سے حج فرض ہوگا؟

گھر بنانے کے لیے رکھی رقم اور پلاٹ کی وجہ سے حج فرض ہوگا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے یہاں گورنمنٹ کی طرف سے حج 2025 کی رقم 4 لاکھ ہے، میرےپاس تین لاکھ نوے ہزار کی رقم تو بینک اکاؤنٹ میں ہے، یہ رقم میں نے گھر خریدنے کیلئے رکھی ہے کیونکہ ابھی میں والد صاحب کے ساتھ ان کے گھر میں رہتا ہوں جو کہ چھوٹا ہے،اسی کے ساتھ میرا ایک پانچ لاکھ کا پلاٹ بھی ہے جس کو میں نے گھر بنانے کیلئے ہی خرید اہے یعنی اس پلاٹ کی رقم اور بینک میں رکھی اماؤنٹ سے میں اپنا گھر خرید کر بناؤں گا، اب ایسی صورت میں کیا مجھ پر حج فرض ہوگا یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں جب تک گورنمنٹ کی طرف سے حج کے فارم جمع ہورہے ہوں، یا پرائیوٹ پیکج میں جانے کی استطاعت ہونے کے ساتھ جب تک پرائیویٹ طور پر حج کے لیے جانا ممکن ہو، اس وقت کے شروع ہونے تک اگر یہ رقم اور پلاٹ آپ کے پاس موجود ہوں تو آپ پر حج کرنا فرض ہوگا اور اگر پلاٹ بیچ کر حج کرنا پڑے تو پلاٹ بیچ کر اس کی رقم سے حج کرنا لازم ہوگا، کیونکہ جس کے پاس ضرورت سے زائد کرنسی، سونا، چاندی موجود ہو، یا رہائش کے علاوہ کوئی اضافی پلاٹ موجود ہو کہ جو اُسے حج کیلئے آنے جانے، نیز وہاں کھانے پینے اور رہائش کے ضروری اخراجات اور اتنی مدت کے لئےاس کے اہل و عیال کے نان نفقہ کے اخراجات کو کافی ہوں تو اس پر حج فرض ہوجاتا ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں آئندہ ذاتی گھر خریدنے کیلئے رکھی رقم یا پلاٹ رکھنے کی ضرورت کا عذر قابل قبول نہیں ہوگا، اور آپ بغیر کسی شرعی عذر کے حج میں تاخیر کرنے اور حج کے علاوہ کسی کام میں وہ رقم خرچ کرنے کے سبب گنہگار بھی ہوں گے۔ ہاں البتہ اگر آپ گورنمنٹ کی طرف سے فارم جمع ہونے سے پہلے ہی اپنے لئے گھر خریدنے اور اُسے بنانے میں رقم خرچ کر دیتے ہیں اور پھر اگر اس کے بعد ضرورت سے زائد اتنی رقم یا پلاٹ نہیں بچتا کہ اس رقم یا پلاٹ کو بیچ کر آپ پرائیوٹ یا گورنمنٹ کے ذریعے حج ادا کرسکیں تو اب آپ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا اور استطاعت نہ ہونے کے سبب حج بھی فرض نہیں ہوگا۔

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمیرحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں حج فرض ہونے کی ساتویں شرط بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ”سفرِ خرچ کا مالک ہو اور سواری پر قادر ہو۔۔۔ سفر خرچ اور سواری پر قادر ہونے کے یہ معنی ہیں کہ یہ چیزیں اُس کی حاجت سے فاضل ہوں یعنی مکان و لباس و خادم اور سواری کا جانور اور پیشہ کے اوزار اور خانہ داری کے سامان اور دَین سے اتنا زائد ہو کہ سواری پر مکہ معظمہ جائے اور وہاں سے سواری پر واپس آئے اور جانے سے واپسی تک عیال کا نفقہ اور مکان کی مرمت کے لیے کافی مال چھوڑجائے اور جانے آنے میں اپنے نفقہ اور گھر اہل و عیال کے نفقہ میں قدرِ متوسط کا اعتبار ہے نہ کمی ہو نہ اِسراف۔ عیال سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا نفقہ اُس پر واجب ہے، یہ ضروری نہیں کہ آنے کے بعد بھی وہاں اور یہاں کے خرچ کے بعد کچھ باقی بچے۔ (بھار شریعت، جلد 1، حصہ 6، صفحہ1039-1040، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

لباب المناسک اور اس کی شرح میں ہے:

( و من لہ مال یبلغہ) ای الی مکۃ ذھابا و ایابا (و لامسکن لہ ولا خادم) أی و الحال انہ لیس لہ سکن یاوی الیہ، و لا عبد یخدمہ۔۔۔و ھو محتاج الی کل منھما او احدھما (فلیس لہ صرفہ الیہ) أی صرف المال الی ما ذکر من المسکن و الخادم (ان حضر الوقت) أی وقت خروج اھل بلدہ للحج فانہ تعین اداء النسک علیہ فلیس علیہ ان یدفعہ عنہ الیہ (بخلاف من لہ مسکن یسکنہ لایلزمہ بیعہ) و الفرق بینھما ما فی البدائع و غیرہ عن ابی یوسف انہ قال اذا لم یکن لہ مسکن و لا خادم، و لہ مال یکفیہ لقوت عیالہ من وقت ذھابہ الی حین ایابہ و عندہ دراھم تبلغہ الی الحج لاینبغی ان یجعل ذالک فی غیر الحج فان فعل اثم لانہ مستطیع بملک الدراھم، فلا یعذر فی الترک، و لایتضرر بترک شراء المسکن و الخادم، بخلاف بیع المسکن و الخادم فانہ یتضرر ببیعھما (و ان کان لہ مسکن فاضل۔۔۔ یجب بیعہ ان کان بہ)أی بثمنھا (وفاء بالحج) أی بنفقۃ اداء الحج

ترجمہ: اور جس کے پاس مال ہو کہ جو اُسے مکہ مکرمہ تک جانے اور وہاں سے واپس آنے کیلئے کافی ہو اور اس کے پاس گھر نہ ہو اور نہ ہی خادم ہو یعنی حالت یہ ہو کہ اس کے پاس گھر نہ ہو جس میں وہ رہائش اختیار کرے اور نہ ہی خادم ہو جس سے خدمت لے اور ان دونوں کی یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی حاجت بھی ہے تو اس کیلئے اپنے مال کو گھر اور خادم میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے، جبکہ وقت آجائے یعنی شہر والوں کے حج کیلئے جانے کا وقت ہوجائے کیونکہ اس صورت میں اس پر حج کی ادائیگی متعین ہوجائے گی تو اب اس کیلئے ادائیگی حج کو اپنے سے دور کرکے دوسرے کام میں رقم خرچ کرنا جائز نہیں ہوگا، برخلاف اس شخص کے کہ جس کے پاس گھر ہے جس میں وہ رہتا ہے تو حج کی ادائیگی کیلئے اس گھر کو بیچنا اس پر لازم نہیں۔ ان دونوں مسئلوں میں کہ جو بدائع الصنائع وغیرہ میں امام ابویوسف سے مروی ہے فرمایا کہ جب کسی کے پاس گھر نہ ہو اور نہ ہی خادم ہو اور ا س کے پاس اتنا مال ہے کہ ا س کے جانے کے وقت سے لے کر واپس آنے تک ا س کے اہل وعیال کے نفقہ کو کافی ہو اور اس کے پاس اتنے درہم ہیں کہ حج تک پہنچ جائے تو اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ حج کے علاوہ میں خرچ کرے، اگر اس نے حج کے علاوہ میں خرچ کیا تو گنہگار ہوگا کیونکہ درہم کے ملکیت میں ہونے کی وجہ سے وہ حج کی استطاعت رکھنے والا ہوگا اور حج کو ترک کرنے میں کوئی عذر بھی نہیں ہے اور نہ ہی گھر اور خادم کے نہ خریدنے میں کوئی نقصان ہے، برخلاف کہ جو گھر اور خادم اس کے پاس موجود ہیں ان کو بیچ کر جانے میں اس کا نقصان ہے (تو حج کی ادائیگی کیلئے ان کو بیچنا لازم نہیں، ہاں البتہ) اگر اس کے پاس زائد مکان ہو تو اب اس کو بیچنا اس پر لازم ہوگا، جبکہ اس رقم سے حج کی ادائیگی ہوسکتی ہو۔ (لباب المناسک مع شرحہ، صفحہ 48، 49، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

ثم ما ذكرنا من الشرائط لوجوب الحج من الزاد، و الراحلة، و غير ذلك يعتبر، وجودها، وقت خروج أهل بلده حتى لو ملك الزاد، و الراحلة في أول السنة قبل أشهر الحج، و قبل أن يخرج أهل بلده إلى مكة فهو في سعة من صرف ذلك إلى حيث أحب؛ لأنه لا يلزمه التأهب للحج قبل خروج أهل بلده؛ لأنه لم يجب عليه الحج قبله، و من لا حج عليه لا يلزمه التأهب للحج فكان بسبيل من التصرف في ماله كيف شاء، و إذا صرف ماله ثم خرج أهل بلده لا يجب عليه الحج

ترجمہ: پھر ہم نے حج کے واجب ہونے کی جوشرائط ذکر کیں یعنی زادِراہ اور سواری وغیرہ، تو ان کےپائے جانے کا اعتبار شہر والوں کے حج کے لئے نکلنے کے وقت ہوگا یہاں تک کہ اگر کوئی شخص سال کے شروع میں اشہر حج سے پہلے اور شہر والوں کے مکہ مکرمہ کی طرف جانے سے پہلے زادِراہ اور سواری کا مالک ہوجائے تو اسے اختیار ہوگا کہ وہ اس رقم کو جہاں چاہے خرچ کردے کیونکہ شہر والوں کے نکلنے سے پہلے اس پر حج کی تیاری کرنا لازم نہیں کیونکہ اس سے پہلے حج لازم نہیں ہوتا اور جس پر حج لازم نہ ہوا ہو اس پر حج کی تیاری کرنا بھی لازم نہیں، تو یہ اپنا مال جہاں چاہے خرچ کرسکتا ہے اور جب اس مال کو خرچ کردیا پھر شہر والے حج کے لئے نکلے تو اب اس پر (استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے ) حج لازم نہیں ہوگا۔ (بدائع الصنائع، جلد 2، فصل شرائط فرضية الحج، صفحہ 125، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

بہارِ شریعت میں ہے: ”اگر مکان ہے مگر اس میں رہتا نہیں۔۔۔ تو بیچ کر حج کرے اور اگر اس کے پاس نہ مکان ہے نہ غلام وغیرہ اور روپیہ ہے، جس سے حج کرسکتا ہے، مگر مکان وغیرہ خریدنے کا ارادہ ہے اور خریدنے کے بعد حج کے لائق نہ بچے گا، تو فرض ہے کہ حج کرے اور باتوں میں اُٹھانا گناہ ہے یعنی اس وقت کہ اُس شہر والے حج کو جارہے ہوں اور اگر پہلے مکان وغیرہ خریدنے میں اُٹھا دیا، تو حرج نہیں۔“ (بھارِ شریعت، جلد 1، حصہ 6، صفحہ 1042، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-605

تاریخ اجراء: 09 جمادی الاخری 1446ھ / 12 دسمبر 2024ء