
مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3671
تاریخ اجراء:10 رمضان المبارک 1446 ھ/11 مارچ 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
عمرہ کے لیے غسل کرنے کے فوراً بعد احرام پہننا ضروری ہے یا کچھ وقت کے لیے کوئی اور لباس پہن کر بھی احرام پہن سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ہرقسم کے احرام (چاہے عمرہ کاہویاحج کا) کی سنتوں میں سے ہے کہ باطہارت احرام باندھاجائے اوراس میں زیادہ بہترہے کہ غسل کرلیاجائے اوراگروضوکیاتووہ بھی کفایت کرے گا،اوریہ فضیلت تبھی حاصل ہوگی جبکہ حدث ہونے سے پہلے پہلےاحرام باندھاجائے،پس اگر غسل کے بعداحرام باندھنے میں دیرکی یہاں تک کہ حدث ہوگیا اور پھر اس کے بعداحرام باندھاتو فضیلت حاصل نہیں ہوگی ۔لہذا فضیلت پانے کے لیے اس بات کالحاظ رکھاجائے کہ غسل کے بعداتنی دیرنہ کی جائے کہ حدث ہوجائے بلکہ حدث ہونے سے پہلے پہلے احرام باندھ لیاجائے۔
نوٹ: یہ یادرہے کہ صرف ان سلی چادریں باندھنے کانام احرام نہیں ہے بلکہ احرام کامطلب ہے :"احرام کی نیت کے ساتھ تلبیہ وغیرہ پڑھنا۔ "اور احرام باندھتے ہی مرد کے لیے سلا لباس پہننا حرام ہو جاتاہے، اس لیے احرام کی نیت کرنے سے پہلے پہلے ان سلی چادریں پہن لینی چاہییں۔
در مختار میں ہے ”و شرط لنيل السنة أن يحرم و هو على طهارته“ ترجمہ: سنت پر عمل کے پائے جانے کی شرط ہے کہ وہ باطہارت ہوکر احرام باندھے۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے ”(قوله و شرط إلخ) أي لأنه إنما شرع للإحرام حتى لو اغتسل فأحدث ثم أحرم فتوضأ لم ينل فضله، ملتقطا“ ترجمہ: (مصنف کا قول شرط ہے۔۔ الخ) کیونکہ غسل احرام کے لئے ہی مشروع ہوا تو اگر کسی نے غسل کیا، پھر اسے حدث لاحق ہوا پھراس نے احرام باندھا اور اس کے بعد وضو کیا تو وہ غسل والی سنت کی فضیلت نہیں پائے گا۔ (رد المحتار علی الدر المختار، ج 2، ص 481، دار الفکر، بیروت)
نہر الفائق میں ہے ”أن هذا الغسل إنما شرع للإحرام فيشترط لنيل السنة فيه أن يحرم و هو على طهارته حتى اغتسل فأحدث ثم أحرم فتوضأ لم ينل فضله كذا في (البناية)“ ترجمہ: بیشک یہ غسل احرام کے لئے مشروع ہوا ہے تو سنت پر عمل کے پائے جانے کی شرط ہے کہ وہ باطہارت ہوکر احرام باندھے، حتی کہ اگر کسی نے غسل کیا، پھر اسے حدث لاحق ہوا پھراس نے احرام باندھا اور اس کے بعد وضو کیا تو وہ غسل والی سنت کی فضیلت نہیں پائے گا۔ یونہی بنایہ میں ہے۔ (نہر الفائق، ج 2، ص 64، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے ”جب وہ جگہ قریب آئے، مسواک کریں اور وضو کریں اور خوب مَل کر نہائیں، نہ نہا سکیں تو صرف وضو کریں یہاں تک کہ حیض ونفاس والی اور بچے بھی نہائیں اور باطہارت احرام باندھیں یہاں تک کہ اگر غسل کیا پھر بے وضو ہوگیا اور احرام باندھ کر وضو کیا تو فضیلت کا ثواب نہیں۔“ (بہار شریعت، ج 1، حصہ 6، ص 1071، مکتبۃ المدینہ)
حقیقۃً احرام خاص حالت کا نام ہے، نہ کہ احرام میں باندھی جانے والوں چادریں احرام ہیں، ہاں مجازاً ان چادروں کو احرام کہا جاتاہے، چنانچہ اِحرام کی تعریف کے متعلق قاضی ابو الحسن على بن حسین السغدى حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات : 461ھ /1068ء) لکھتے ہیں :"اما الاحرام فھو التلبیۃ مع وجود النیۃ" ترجمہ :بہر حال احرام تو وہ (حج یا عمرہ یا دونوں کی ) نیت کے ساتھ تلبیہ پڑھنے کو کہا جاتاہے۔ (النتف فی الفتاوی، کتاب المناسک، فرائض الحج، صفحہ 133، مطبوعہ کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم