حج بدل میں حج کی قربانی کا خرچہ کس پر لازم ہوگا؟

حج بدل میں حج کی قربانی کا خرچہ کس پر لازم ہوگا ؟

مجیب:ابو الحسن رضا محمدعطاری مدنی

مصدق:مفتی ابومحمد  علی اصغر عطاری  مدنی

فتوی نمبر:Nor-13637

تاریخ اجراء:16جمادی الثانی1446 ھ/19دسمبر2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے ایک دوست کا مسئلہ ہے کہ ان کو ان کادوست اپنے والد مرحوم کی طرف سےسرکاری حج اسکیم پر حج بدل کےلئے بھیج رہا ہے۔جس کو بھیجا جا رہا ہے وہ اپنا فرض حج ادا کرچکا ہے،اب جبکہ وہ حج بدل کے لئے جائے گا اور سرکاری حج اسکیم کےحساب سےاس کاحج تمتع ہوگایعنی پہلے وہ عمرہ کرے گاپھرعمرے کااحرام کھول دے گا اور ایامِ حج میں حج کا احرام باندھے گااور یہ بات بھیجنےوالےکو بھی معلوم ہے،اس کی طرف سے اس کی اجازت بھی ہے۔اس کاسوال یہ ہے کہ حج بدل کی قربانی کس پر لازم ہے؟جس کو بھیجا جا رہا ہے،اس پر یابھیجنےوالےپر لازم ہے کہ اس کے بھی اخراجات دے؟جو شخص حج بدل کرنے جا رہا ہے،اس کی اتنی اسطاعت ہے کہ حج کی قربانی وہ خود کر سکتا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حاجی پرلازم ہونے والےدم/قربانی میں اصول یہ ہے کہ دمِ احصار کےعلاوہ جوقربانی بھی حج کی وجہ سے لازم ہو گی جیسے حج قِران یا تمتع کی  دمِ شکر کی قربانی یا جو دم/قربانی احرام کی وجہ سے لازم ہو جیسےاحرام کی خلاف ورزیوں مثلاً خوشبو لگانے ،سلے ہوئے کپڑے پہننے   وغیرہ کے سبب دم لازم ہوگیا تو اس قسم کی سب قربانیاں حج بدل کرنے والے پر ہوں  گی،وہ اپنی جیب سے ان کی ادائیگی کرے گا،یہ قربانیاں حج کروانے والے پر لازم نہیں ، البتہ حج پر بھیجنے والا اسے قربانی کی رقم بھی دے تو یہ ایک عمدہ نیکی ہے ، حرم میں قربانی میں اعانت کا ثواب اسے حاصل ہوگا۔

                                                                                   لہٰذاجس کو حج بدل کےلئے بھیجاجائے اور بھیجنے والے نےاسےحج تمتع یا حج قران کی اجازت دی ہو توحجِ تمتع یا حج قِران کی قربانی حج کرنے والااپنے مال سے اپنے نام پر کرےگا، حج بدل کروانے والے کی طرف سے نہیں کرے گا ، کیونکہ حجِ تمتع وقران میں حاجی پردمِ شکریعنی شکرانے کے طور پرجو قربانی لازم ہوتی ہے، وہ ایک سفر میں حج و عمرہ دونوں عبادتوں کو جمع کرنے کی و جہ سے لازم ہوتی ہے اور ایک سفر میں حج و عمرہ دونوں عبادتوں کوبالفعل جمع کرنے والا یہی حاجی ہوتا ہےقطعِ نظر اس سے کہ شرعی لحاظ سےاس حج کی ادائیگی ،جس کی طرف سےحج کیا گیااس کی طرف سے ہوتی ہے،حج کرنے والے کی طرف سے نہیں ہوتی مگر حج کی قربانی کا تعلق بالفعل حج کرنے والے سےہوتا ہے، اس لیے یہ قربانی  حاجی پر اسی کے مال سے لازم ہوتی ہے۔اس کے پاس مال نہ ہو تو فقیر شرعی کے لئے جو حکم بیان ہوا ان امور کی ادائیگی اسے کرنا ہوگی۔

   حج بدل کی قربانی کس پر لازم ہوگی؟اس کےاصول کو بیان کرتے ہوئےفقیہ النفس امام فخر الدین حسن بن منصور اوزجندی المعروف امام قاضی خان رحمۃ اللہ علیہ (متوفی:593ھ)اپنےفتاوی میں فرماتے ہیں:

   الحاج عن الميت اذا كان مامورا بالقران كان دم القران على الحاج لا فی مال الميت والاصل يه ان كل دم يجب على المامور بالحج يكون على الحاج لا فی مال الميت الا دم الاحصار

   یعنی میت کی طرف سے حج بدل کرنے والے کواگر حجِ قِران کا حکم دیا گیا ہو تو قِران کی قربانی حج کرنے والےپراپنی جیب سے ہو گی ، نہ کہ میت کے مال سے ،اس مسئلےمیں اصول یہ ہے کہ جو دم حج بدل کرنے والے پرواجب ہوگا تو اس کی ادائیگی حج کرنے والے کے ذاتی مال سے کرنا ہوگی نہ کہ میت کے مال سے، سوائے دمِ احصار کے۔(فتاوی قاضی خان، فصل فی الحج عن المیت، ج01،ص273،مطبوعہ کراچی)

   اسی اصول کومزید واضح انداز میں بیان کرتے ہوئےعلامہ رحمۃ اللہ سندھی (متوفی:800ھ)لباب المناسک میں اوراس کی شرح میں علامہ ملا علی قاری(متوفی:1014ھ)رحمہما اللہُ تعالیٰ فرماتے ہیں:

   (جمیع الدماء المتعلقۃ بالحج) ای بنفسہ کدم شکر (والاحرام) ای بارتکاب محظور فیہ کجزاء صید وطیب وحلق شعر وجماع ونحو ذلک (علی المامور) ای اتفاقاً لان الشکر لہ والجبر علیہ (الا دم الاحصار خاصۃ فانہ فی مال الآمر)۔۔۔۔(حتی لو أمره بالقران او التمتّع فالدم على المامور)ای فی مال نفسہ

                                                                                         یعنی تمام وہ قربانیاں جن کا تعلق خود حج کرنے سے ہوتا ہے جیسے شکرانے کی قربانی اور جن کا تعلق احرام میں کسی خلاف ورزی کرنے سے ہوتا ہے جیسے شکار کرنےکی جزاء ،خوشبو لگانےیابال مونڈنے یا ہمبستری کرنے یا دیگر خلاف ورزیاں کرنے کا دم تو یہ تمام قربانیاں بالاتفاق حج کرنے والے پر لازم ہیں کیونکہ شکر کا موقع اسی کو ملا ہےاورکوئی کوتاہی ہوئی تو اس کی تلافی بھی اسی کے ذمہ ہےسوائےدمِ احصار کے کہ یہ خاص حج پر بھیجنے والے کے مال سے ادا کرنا ہوگا ۔ یہاں تک کہ اگر کسی نےدوسرے کو حج قران یا حج تمتع کرنے کا کہا تو تمتع یا قران کی شکرانے کی قربانی حج کرنے والے پراپنی جیب سےکرنا لازم ہے۔(لباب المناسک وشرحہ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط،ص650،مطبوعہ مکہ مکرمہ،ملتقطاً)

   درّمختار میں ہے:

   (ودم القران) والتمتع (والجناية على الحاج) ان أذن له الآمر بالقران والتمتع

   یعنی قِران و تمتع کی قربانی اور جنایت کا دَم حج کرنے والےپر ہوگا بشرطیکہ قران و تمتع حجِ بدل کروانے والے کی اجازت سے ہو۔

   اس کے تحت فتاوی شامی میں ہے:

   (قوله: على الحاج) ای المامور اما الاول فلانه وجب شكرا على الجمع بين النسكين وحقيقة الفعل منه وان كان الحج يقع عن الآمر لأنه وقوع شرعی لا حقيقی

   یعنی ماتن کےقول حاجی سے مراد حجِ بدل کے لئے بھیجا جانے والا شخص ہے۔پہلی چیزیعنی قران وتمتع کی قربانی حج کرنے والےپر اس وجہ سے لازم ہےکہ یہ حج وعمرہ دونوں  عبادتوں کو جمع کرنے کے شکرانے کے طو ر پر واجب ہوتی ہےاوریہ عبادتیں بالفعل اسی نے  ادا کی ہیں، اگرچہ حج کی ادائیگی بھیجنے والے کی طرف سےہوتی ہے کیونکہ اس کی طرف سے حج کا ہوجاناشرعی معاملہ ہے نہ کہ حقیقی۔(الدرّ المختاروردّ المحتار،ج4،ص36،مطبوعہ کوئٹہ)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”مرض یا دشمن کی وجہ سے حج نہ کرسکا یا اور کسی طرح پر محصر ہوا، تو اس کی وجہ سے جو دم لازم آیا، وہ اس کے ذمہ ہے ،جس کی طرف سے گیااور باقی ہرقسم کے دم اس کے ذمہ ہیں،مثلاً:سلا ہو ا کپڑا پہنا یا خوشبو لگائی یا بغیر احرام میقات سے آگے بڑھا یا شکار کیا یا بھیجنے والے کی اجازت سے قِران و تمتع کیا۔(بھارشریعت،ج01،حصہ06،ص1206،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم