
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا جس پر زکوٰۃ فرض ہو، یا جس کے پاس زیورات ہوں کیا اسی پر حج فرض ہوتا ہے اور جس پر زکوٰۃ فرض نہ ہو یا اس کے پاس زیورات نہ ہوں کیا اس پر حج فرض نہیں ہوتا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
حج کے فرض ہونے کے لیے زکوٰۃ کا فرض ہونا، یا زیورات کا مالک ہونا ضروری نہیں یعنی ایسا نہیں کہ جس پر زکوۃ فرض ہو، یا جس کے پاس زیورات ہوں تو اس پر حج بھی فرض ہوجائے، اور ایسا بھی نہیں کہ جس پر زکوۃ فرض نہ ہو، یا جس کے پاس زیورات نہ ہوں تو اس پر حج بھی فرض نہ ہو، کیونکہ زکوۃ اور حج میں سے ہر ایک کی فرضیت کا جدا جدا معیار ہے۔ زکوۃ کے فرض ہونے کیلئے ایک مخصوص قسم کا مال ایک مخصوص مقدار میں ہونا ضروری ہوتا ہے، جبکہ حج فرض ہونے کیلئے کوئی مخصوص قسم کا مال مخصوص مقدار میں ہونا شرط نہیں ،بس حج کے اخراجات کی استطاعت ہونا ضروری ہے۔ لہذا اگر کسی پر زکوۃ فرض نہ ہو، یا زیورات نہ ہوں، لیکن اس کے پاس قرض سے اور ضرورت سے زائد رقم ہو، یا حاجت سے زائدکوئی سا بھی مال اتنا موجود ہو جس کی قیمت اتنی ہو کہ جو اسے حج کے لئے آنے جانے کی سواری کے خرچے، وہاں کھانے پینے اور رہائش کے ضروری اخراجات اور اتنی مدت کے لئےاس کے اہل و عیال کے نان نفقہ کے اخراجات کو کافی ہو تو اس صورت میں اس پر حج ضرور فرض ہوگا، ورنہ نہیں۔
زکوۃ کیلئے مال کا بقدر نصاب ہونا شرط ہے، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:
(و منها كون المال نصابا) فلا تجب في أقل منه
ترجمہ: اور زکوۃ فرض ہونے کی شرائط میں مال کا بقدر نصاب ہونا شرط ہےلہذا نصاب سے کم میں زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، صفحہ 172، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
جبکہ حج فرض ہونے کیلئے کوئی مخصوص نصاب نہیں ہے بلکہ سفر حج کے اخراجات اور سواری پر قدرت شرط ہے، چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
و منھا القدرۃ علی الزاد و الراحلۃ۔۔۔ و تفسیر ملک الزاد و الراحلۃ أن یکون لہ مال فاضل عن حاجتہ و ھو ما سوی مسکنہ و لبسہ و خدمہ و اثاث بیتہ قدر ما یبلغہ الی مکۃ ذاھبا و جائیا راکبا لا ماشیا و سوی مایقضی بہ دیونہ و یمسک لنفقۃ عیالہ و مرمۃ مسکنہ و نحوہ الی وقت انصرافہ کذا فی محیط السرخسی
ملتقطاً۔ترجمہ: (حج فرض ہونے کی شرائط میں سے) سفر کے خرچ اور سواری پر قادر ہونا ہے اور اس کی وضاحت یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں اس کی حاجت سے زائد یعنی اس کے مکان، لباس، خادم، گھریلو سامان سے اتنا زائد مال ہو کہ جو اسے سواری پر مکہ مکرمہ پہنچادے اور وہاں سے سواری پر واپس لے آئے، پیدل نہیں۔ اور وہ مال اس سے زائد ہو کہ جس سے اس کے قرض کو پورا کیا جائے، نیز واپسی تک اپنے عیال کا نفقہ اور اپنے مکان کی مرمت کیلئے مال چھوڑ جائے، ایسا ہی محیط سرخسی میں ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، کتاب المناسک، صفحہ 242،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
بہار شریعت میں حج کی شرائط کے بیان میں ہے: ”سفرِ خرچ کا مالک ہو اور سواری پر قادر ہو۔۔۔ سفر خرچ اور سواری پر قادر ہونے کے یہ معنی ہیں کہ یہ چیزیں اُس کی حاجت سے فاضل ہوں یعنی مکان و لباس و خادم اور سواری کا جانور اور پیشہ کے اوزار اور خانہ داری کے سامان اور دَین سے اتنا زائد ہو کہ سواری پر مکہ معظمہ جائے اور وہاں سے سواری پر واپس آئے اور جانے سے واپسی تک عیال کا نفقہ اور مکان کی مرمت کے لیے کافی مال چھوڑجائے اور جانے آنے میں اپنے نفقہ اور گھر اہل وعیال کے نفقہ میں قدرِ متوسط کا اعتبار ہے نہ کمی ہو نہ اِسراف۔ عیال سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا نفقہ اُس پر واجب ہے، یہ ضروری نہیں کہ آنے کے بعدبھی وہاں اور یہاں کے خرچ کے بعد کچھ باقی بچے۔“ ملتقطاً (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 6،صفحہ 1039، 1040، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-694
تاریخ اجراء: 23 رمضان المبارک 1446ھ / 24 مارچ 2025ء