
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
میری حرم شریف میں ڈیوٹی ہے۔ یہاں پر بعض لوگ جو حج یا عمرہ کرنے آتے ہیں، بغیر مانگے کچھ پیسے کام کرنے والوں کو ہدیۃً دے دیتے ہیں، بعض کام کرنے والے لوگوں سے مانگ کر لیتے ہیں، ایسا کرنا کیسا ہے؟ یہ پیسہ لینا ہمارے لئے درست ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
حرم شریف میں جو لوگ مختلف ڈیوٹیاں سر انجام دے رہے ہوتے ہیں، بعض زائرین از خود ان کو ہدیۃً پیسے وغیرہ کوئی چیز دیتے ہیں، یہ تحفہ ہے، ان کےلئے اسے لینے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ! کسی خادم کا کسی زائر سے پیسے مانگنا، جائز نہیں کہ یہ بلا اجازت شرعی سوال ہے اور ایسا سوال کرنے کی اجازت نہیں۔
بخاری شریف کی حدیث پاک میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و الہ و سلم نے فرمایا:
ما يزال الرجل يسأل الناس حتى يأتي يوم القيامة ليس في وجهه مزعة لحم
ترجمہ: آدمی لوگوں سے سوال کرتا رہے گا، یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا کوئی ٹکڑا نہیں ہوگا۔ (صحیح البخاری، جلد 2، صفحہ 123، حدیث: 1474، مطبوعہ مصر)
مسلم شریف کی حدیث پاک میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و الہ و سلم نے فرمایا:
من سأل الناس أموالهم تكثرا، فإنما يسأل جمرا فليستقل، أو ليستكثر
ترجمہ: جو اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے ان کے مال کا سوال کرے، تو وہ جہنم کے انگارے کا سوال کرتا ہے، چاہے کم کرے یا زیادہ۔ (صحیح مسلم، جلد 3، صفحہ 96، حدیث: 1041، دار الطباعة العامرة، تركيا)
در مختار میں ہے
(و لا) يحل أن (يسأل) شیئا من القوت (من له قوت يومه) بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب و يأثم معطيه إن علم بحاله لإعانته على المحرم
ترجمہ: جس کے پاس ایک دن کا کھانا ہو یا وہ تندرست جو کمانے پر قادر ہو، اسے کھانے کے لیے سوال کرنا حلال نہیں اور ایسے شخص کو دینے والا گنہگار ہو گا، اگر اسے اس کی کیفیت کا علم ہو، کیونکہ یہ حرام پر معاونت ہے۔ (الدر المختار، صفحہ 139، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
امام اہلسنت اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: "جو اپنی ضروریات شرعیہ کے لائق مال رکھتا ہے یا اس کے کسب پر قادر ہے، اُسے سوال حرام ہے اور جو اس مال سے آگاہ ہو، اُسے دینا حرام اور لینے اور دینے والا دونوں گنہگار و مبتلائے آثام۔ صحاح میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں:
لاتحل الصدقۃ لغنی ولذی مرۃ سوی
(ترجمہ: کسی مالدار اور طاقتور تندرست شخص کے لیے صدقہ حلال نہیں۔)" (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 307، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4028
تاریخ اجراء: 21 محرم الحرام 1447ھ / 17 جولائی 2025ء