
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر عورت حالت احرام میں ہو، ابھی عمرہ نہیں کیا اور حیض آجائے تو احرام کی پابندیاں ختم ہو جائیں گی یا باقی رہیں گی؟ اگر غسل سے پہلے مدینے جانا ضروری ہو، یعنی پیکج ہی ایسا طے ہوا ہے، تو کس طرح احرام سے نکلا جائے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
حیض آنے کی وجہ سے احرام کی پابندیا ں ہرگز ختم نہیں ہوتیں، بلکہ عورت بدستور احرام کی حالت ہی میں رہتی ہے،اگر کسی عورت نے عمرہ ادا نہ کیا ہوکہ اس دوران اسے حیض آجائے، تو جب تک وہ پاک ہونے کے بعد غسل سے فارغ ہوکر عمرہ ادا نہیں کرلیتی، وہ احرام کی حالت ہی میں رہے گی، اور احرام کی پابندیاں حسب حال باقی رہیں گی۔ اگر عورت کے ساتھ یہ معاملہ ہو کہ وہ حیض کی وجہ سے عمرہ ادا نہیں کرسکی ہو، اور پیکج ایسا ہو کہ پاک ہونے سے پہلے اس عورت نے مدینہ شریف حاضری بھی دینی ہو، تو وہ اسی احرام کی حالت ہی میں مدینہ شریف حاضری کیلئے جاسکتی ہے، لیکن پاک ہونے پر اُسے مدینہ شریف سے واپس مکہ مکرمہ آ کر عمرہ ضرور ادا کرنا ہوگا، بغیر عمرہ کے وہ احرام سے باہر نہیں آسکے گی، اگر گروپ کی مدینہ شریف سے واپس مکہ مکرمہ حاضری کا شیڈول نہ ہو، تو عورت پر لازم ہوگا کہ وہ انفرادی طور پر اپنے محرم کے ساتھ دوبارہ مکہ شریف جاکر عمرہ ادا کرکے احرام سے باہر ہو۔ واضح رہے کہ چونکہ ایسی عورت مکہ شریف سے مدینہ شریف احرام کی حالت ہی میں آئی ہوگی، لہذا واپسی پر ایسی عورت میقات سے نئے احرام کی نیت ہرگز نہیں کرے گی، اگر نئے سرے سے عمرے کی نیت کرےگی تو دو احراموں کو جمع کرنے اور پھر اُن میں سے ایک کے رفض (ختم) ہوجانے کے سبب اُس رفض ہونے والے عمرے کی قضا اور ایک دم لازم ہوجائےگا، لہذا بغیر نئی نیت کیے، اسی احرام سے مکہ شریف حاضر ہوکر اپنا عمرہ ادا کرلے۔
طوافِ عمرہ کے تمام یا اکثر پھیرے کرے بغیر احرام ختم نہیں ہوگا، عمرہ کرنا ہی لازم ہوگا، جیسا کہ علامہ ابو الحسن علاء الدین علی بن بلبان فارسی حنفی رحمۃ اللہ علیہ،عمدۃ السالک فی المناسک میں لکھتے ہیں:
لو ترک اکثر طواف العمرۃ أو کلہ، و سعی بین الصفا و المروۃ و رجع الی اھلہ فھو محرم أبداً، و لا یجزئ عنہ البدل، و علیہ أن یعود الی مکۃ بذلک الاحرام، و لا یجب علیہ احرام جدید لاجل مجاوزۃ المیقات
ترجمہ: اگر کسی نے عمرے کے طواف کے اکثر یا تمام پھیرے ترک کردئیے اور صفا مروہ کی سعی کرلی اور اپنے گھر لوٹ گیا، تو وہ ہمیشہ حالتِ احرام میں رہے گا،اور اس کے بدلے کوئی چیز کافی نہ ہوگی، اس پر لازم ہوگا کہ وہ اسی احرام کے ساتھ مکہ مکرمہ واپس آئے اور اس پر میقات سے گزرنے پر نیا احرام لازم نہیں ہوگا۔ (عمدۃ السالک فی المناسک، الباب الرابع عشر فی الجنایات، صفحہ 525، دار اللباب)
اگر کوئی عمرے کے دو احراموں کو جمع کرے،تو ایک کے افعال شروع کردینے سے دوسرے کا خود بخود رفض ہوجائے گا، اور رفض ہونے والے عمرے کی قضا کے ساتھ،دم بھی لازم ہوگا،چنانچہ بحر الرائق ميں ہے:
و إن كانا معا أو على التعاقب فالحكم كما تقدم في الحجتين من لزومهما عندهما خلافا لمحمد من ارتفاع أحدهما بالشروع في عمل الأخرى عند الإمام خلافا لأبي يوسف و وجوب القضاء و دم للرِفض
ترجمہ: اور اگر دو عمروں کا احرام ایک ساتھ ہو یا ایک کے بعد دوسرے کا ہو تو اس کا حکم وہی ہے جو دو حج کو جمع کرنے کا بیان ہوا یعنی یہ دونوں عمرے شیخین کے نزدیک لازم ہوجائیں گے، برخلاف امام محمد کے۔ اور امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دوسرے کے افعال میں شروع ہونے سے اُن میں سے ایک کا ارتفاع ہوجائے گا، برخلاف امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے اور اس چھوٹنے والے عمرے کی قضا واجب ہوگی اور رِفض (ترکِ) عمرہ کا ایک دم لازم ہوگا۔ (البحر الرائق، جلد 3، باب اضافۃ الاحرام الی الاحرام، صفحہ 56، دار الكتاب الإسلامي)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-495
تاریخ اجراء: 23 محرم الحرام 1446ھ / 30 جولائی 2024ء