
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-600
تاریخ اجراء:05جمادی الاخری6144ھ/07دسمبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ احرام کی حالت میں کمر میں درد کی وجہ سے بیلٹ باندھنا اور گھٹنے میں درد کی وجہ سےگرِپ(Knee Grip) پہننےکا کیا حکم ہے،کیا اس صورت میں کوئی کفارہ بھی لازم ہوگا یا نہیں؟نیز اگر کوئی احرام کی حالت میں درد کی وجہ سے کمر پربیلٹ اور گھٹنوں میں گرپ دونوں ہی چیزیں پہنے،تو اس پر کتنے کفارے لازم ہوں گے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
کمر پر باندھے جانے والا بیلٹ اور گھٹنوں پر پہنا جانے والا گرپ سِلا ہواہوتا ہے اور اُسے معتاد انداز میں ہی باندھا اور پہنا جاتا ہے،لہذا یہ لُبس مخیط بروجہ معتاد(یعنی سلے ہوئے لبا س کو عادت کے مطابق پہننے ) میں داخل ہوگا اور مرد کے لیے احرام کی حالت میں سلا ہوا لباس عادت کے مطابق پہننا شرعاً جائز نہیں،ہاں اگر کوئی شخص واقعی کسی عذر کے سبب جیسے کمر کے درد کے سبب بیلٹ باندھے یا گھٹنوں کے درد کے سبب گرپ پہنے توعذر کی وجہ سےاُسے پہننے سے وہ گنہگار نہیں ہوگا اور یہ ’’جرم غیر اختیاری‘‘ کہلائے گا،کیونکہ اگر مُحرم عذر کی وجہ سے کوئی ایسا ممنوع کام کرے جس سے کفارہ لازم ہو، تو وہ جرم غیر اختیاری کہلاتا ہے،البتہ اس صورت میں کفارے کی ادائیگی میں تخفیف حاصل ہوگی، جس کی تفصیل یہ ہے:
(۱)اگر مسلسل پورے چار پہر(یعنی بارہ گھنٹے) یا اس سے زیادہ دیر تک کمر پر بیلٹ کو باندھے رکھے،یا گھٹنوں پر گرپ کو پہنے رکھے، تو اُسے اختیار ہوگا کہ چاہے تو دم دیدے،یا چاہے تو اِن تین صورتوں میں سے کوئی ایک کر لے، یعنی چاہے تو چھ شرعی فقیروں کو ایک ایک صدقہ فطر یا اس کی قیمت دے دے،یا اُنہیں صبح و شام دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلادے، یا پھرتین روزے رکھ لے۔
(۲) اور اگر وہ چار پہر یعنی بارہ گھنٹے سے کم دیر تک پہنے رکھے تو اُسے اختیار ہوگا کہ چاہے تو اس کے کفارے میں ایک صدقہ فطر یا اس کی قیمت ادا کردے یا ایک روزہ رکھ لے۔مذکورہ دونوں صورتوں میں کفارے کی کوئی بھی صورت اختیار کرنے سے کفارہ ادا ہوجائے گا،البتہ صدقہ کے ساتھ ادائیگی میں افضل یہ ہے کہ حرم کے فقراء پر صدقہ کرےاور روزے اپنے وطن آکر بھی رکھ سکتا ہے،حرمِ مکہ میں رکھنا ہی ضرور ی نہیں۔
واضح رہے کہ اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں کمر پر بیلٹ اور گھٹنوں میں گرپ دونوں ہی چیزیں عذر کی وجہ سے پہنے،چاہے گرپ ایک گھٹنے میں یا دونوں گھٹنوں میں پہنے، تو بہرحال اس پر بیلٹ اور گرپ دونوں کے جرم غیر اختیاری کا ایک ہی کفارہ لازم ہوگا، بیلٹ اور گرپ کا الگ الگ کفارہ نہیں ہوگا۔
احرام کی حالت میں ممنوع لباس کے متعلق ایک ضابطہ بیان کرتے ہوئےعلامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں فرماتے ہیں:’’وفي البحر عن مناسك ابن أمير حاج الحلبي أن ضابطه لبس كل شيء معمول على قدر البدن أو بعضه بحيث يحيط به بخياطة أو تلزيق بعضه ببعض أو غيرهما ويستمسك عليه بنفس لبس مثله‘‘ ترجمہ:بحر الرائق میں ابن امیر الحاج حلبی کی مناسک کے حوالے سے ہے کہ ضابطہ یہ ہے کہ ہر اس چیز کو پہننا(مرد کے لیے احرام کی حالت میں جائز نہیں) جو پورے بدن یا اس کے بعض حصے کے برابر تیار کردہ ہواس طرح کہ وہ سلائی کے ذریعے یا بعض اجزاء کو بعض کے ساتھ چپکانے یا ان دونوں کے علاوہ کسی چیز کے ذریعے بدن کا احاطہ کرنے والی ہو اور بدن پر خود اس جیسے لباس کےپہننے سے ہی اس کا استمساک حاصل ہوجائے۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد3،صفحہ571،دار المعرفہ،بیروت)
سلے ہوئے لباس کو معتاد یعنی عادت کے مطابق احرام کی حالت میں پہننے کی ممانعت سے متعلق محیط برہانی میں ہے: ”والأصل أن المحرم ممنوع عن لبس المخيط على وجه المعتاد‘‘ترجمہ:اور اصل یہ ہے کہ محرم (مرد) کو سلا ہوا لباس معتاد انداز میں پہننا ممنوع ہے۔(المحیط البرھانی،جلد2،الفصل الخامس فیما یحرم علی المحرم، صفحہ446،دار الكتب العلمیہ، بيروت)
اگر احرام میں کسی جنایت کاا رتکاب عذر کی وجہ سے کیا تو گناہ نہیں،مگر کفارہ اس صورت میں بھی لازم ہوگا، چنانچہ لباب المناسک اور اس کی شرح میں ہے:’’ان جنی بغیر عمد أو بعذر فعلیہ الجزاء دون الاثم‘‘ ترجمہ:اگر بغیر ارادے کے یا عذر کی وجہ سے جنایت کی،تو کفارہ لازم ہوگا،مگر گناہ نہیں ہوگا۔(لباب المناسک مع شرحہ،باب الجنایات، صفحہ422، مطبوعہ مکۃ المکرمہ)
اگر عذر کی وجہ سے سلا ہوا لباس پہنا ،تو اُسے کفارے میں اختیار ہوگا ،چنانچہ ہدایہ شریف میں ہے:’’لبس مخيطا۔۔۔ من عذر فهو مخير إن شاء ذبح شاة وإن شاء تصدق على ستة مساكين بثلاثة أصوع من الطعام وإن شاء صام ثلاثة أيام‘‘ترجمہ:سلا ہوا لباس عذر کی وجہ سے پہنا،تو اسے اختیار ہوگا کہ چاہے تو(دم دے یعنی)بکری ذبح کرے اور چاہے تو چھ مسکینوں پر تین صاع(یعنی ہر ایک کو آدھا صاع) صدقہ کردے اور چاہے تو تین روزے رکھ لے۔(الھدایہ،جلد1،صفحہ159،دار احياء التراث العربي،بيروت)
لباب المناسک اور اس کی شرح میں ہے:’’(ولو ارتکب المحظور۔۔۔۔لعذر فھو مخیر)ای بین اشیاء ثلاثۃ(ان شاء ذبح شاۃ)أی فی الحرم(وان شاء تصدق علی ستۃ مساکین)وھم من اھل الحرم افضل(وان شاء صام ثلاثۃ ایام )وھذا ما ذکر من الانواع الثلاثۃ(فیما یجب فیہ الدم)أی علی وجہ التخییر (وأما مایجب بہ الصدقۃ)أی فیما فعلہ من عذربأن لبس من اقل من یوم(ففیہ یخیر بین الصوم والصدقۃ فان شاء تصدق بنصف صاع أو ما وجب علیہ من الصدقۃ)أی فیما أوجبوا علیہ من أن یطعم شیئا(أو صام عنہ یوما)‘‘ترجمہ:اور اگر ممنوع کام کسی عذر کی وجہ سے کیا،تو اسے مذکورہ تینوں چیزوں کےساتھ کفارے میں اختیار دیا جائے گا،چاہے تو حرم میں بکری ذبح کرلے،اور چاہے تو چھ مسکینوں پر صدقہ کردے اور ان فقیروں کا اہل حرم سے ہونا افضل ہے، اور چاہے تو تین روزے رکھ لے۔ اور یہ جو اختیاری طور پر تین چیزیں ذکر کی گئی ہیں ، یہ اس صورت میں ہیں کہ جب اس جنایت سے دم واجب ہو ،بہرحال جب ایسی جنایت ہو جس میں صدقہ واجب ہو اور وہ عذر کی وجہ سے کی ہو جیسے ایک دن(یا رات سے)کم سلا ہوا لباس پہنا، تو اسےروزے اور صدقہ سے کفارے کے درمیان ادائیگی کا اختیار دیا جائے گا،اس طرح کہ چاہے تو نصف صاع گندم صدقہ کرے یا جو بھی اس پر صدقہ واجب ہوا ہے، جیسے ان صورتوں میں جس میں فقہاء نے اس پر کچھ کھلانا واجب کیا ہے ،یا پھر وہ ایک دن روزہ رکھے۔(لباب المناسک مع شرحہ، باب الجنایات،صفحہ473،مطبوعہ مکۃ المکرمہ)
حج کے مسائل سے متعلق نہایت آسان اور عمدہ کتاب بنام’’27 واجبات حج اور تفصیلی احکام‘‘میں ہے:”جہاں دَم کا حکم ہے وہ جُرم اگر بیماری یا سخت گرمی یا شدید سردی یا زخم یا پھوڑے یا جوؤں کی سخت ایذا کے باعث ہوگا،تو اسے جرم غیر اختیاری کہتے ہیں۔جرم کے غیر اختیاری ہونے پر چاہے تو دَم دے دے، چاہےتو ان تین صورتوں میں سے کوئی ایک کر لے۔ (۱)چھ مسکینوں کو ایک ایک صدقہ دے (۲)چھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلادے (۳)تین روزے رکھ لے۔مذکورہ تینوں صورتوں میں سے کسی پر بھی عمل کرنے میں اختیار ہے کوئی بھی صورت اختیار کرنے سے کفارہ ادا ہوجائے گا۔ اگر جرم غیر اختیاری ایسا ہو کہ جس میں صدقہ کا حکم ہے تو اختیار ہوگا کہ صدقہ کے بدلے ایک روزہ رکھ لے۔‘‘(27 واجبات حج اور تفصیلی احکام،صفحہ175،173،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
اگر کوئی عذر کے سبب بدن کی دو جگہوں پرسلا ہوا لباس پہنے تو جرم غیر اختیاری کا ایک ہی کفارہ لازم ہوگا،چنانچہ بحر الرائق ،رد المحتار میں ہے:واللفظ للبحر:’’إذا لبسهما على موضعين لضرورة بهما في مجلس واحد بأن لبس عمامة وخفا بعذر فيهما فعليه كفارة واحدة، وهي كفارة الضرورة؛ لأن اللبس على وجه واحد فتجب كفارة واحدة كذا في شرح اللباب‘‘ترجمہ:جب کوئی دو لباس دونوں جگہوں میں ضرورت کی وجہ سے ایک مجلس میں پہنے اس طرح کہ وہ عمامہ اور جرابیں دونوں عذر کی وجہ سے پہنے ،تو اس پر ایک کفارہ ہوگا اور وہ کفارہ ضرورت ہوگا،کیونکہ یہ پہننا ایک ہی وجہ کے ساتھ ہے، تو ایک ہی کفارہ واجب ہوگا ،یونہی شرح اللباب میں ہے۔(بحر الرائق،جلد3،صفحہ8،دار الکتاب الاسلامی،بیروت)
حاشیہ ارشاد الساری الی مناسک الملا علی قاری میں ہے:’’وظاھر ما ذکر انہ لا یلزم لبس الکل فی مجلس واحد۔۔۔بل یکفی جمعھا فی یوم واحد ویدل علیہ قولہ فی اللباب :ویتحد الجزاء مع تعدد اللبس بامور منھا اتحاد السبب وعدم العزم علی الترک عند النزع وجمع اللباس کلہ فی مجلس أو یوم‘‘ترجمہ:اور ظاہر اس کا جو ذکر کیا گیا تو وہ یہ ہے کہ (ایک ہی کفارے کے لیے) تمام لباس کو ایک مجلس میں پہننا لازم نہیں، بلکہ ایک دن میں اس کا جمع کرنا کافی ہے اوراس پر لباب میں ان کا قول دلالت کرتا ہے کہ ان امور یعنی سبب کے ایک ہونے اور اتارتے وقت نہ پہننے کے ارادے کے نہ ہونے اور تمام لباس کو ایک مجلس یا ایک دن میں جمع کرنے کی وجہ سے، لباس کے متعدد ہونے کے باوجود کفارہ ایک ہی ہوگا۔(ارشاد الساری،باب الجنایات، صفحہ428، مطبوعہ مکۃ المکرمہ)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں:’’بیماری وغیرہ کے سبب اگر سر سے پاؤں تک سب کپڑے پہننے کی ضرورت ہوئی، تو ایک ہی جُرم غیر اختیاری ہے۔‘‘(بھار شریعت، جلد1، حصہ6، صفحہ 1198،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم