
مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3690
تاریخ اجراء:21رمضان المبارک 1446ھ/22مارچ2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ایک عورت ماہواری کی حالت میں عمرے کے لیے گئیں،میقات سے نیت کرکے عمرے کا احرام باندھ لیا،لیکن پھر جب وہ ماہواری سے فارغ ہوگئیں تو عمرہ اداکیے بغیرمسجد عائشہ جا کر دوبارہ احرام باندھ کر پھرعمرہ ادا کیا۔اب ان کےلئے کیا حکم ہے؟کیا ان کا عمرہ ادا ہوگیا اور دم یا صدقہ لازم ہوا یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں جو عمرہ ادا کیا وہ ادا ہوگیا،لیکن یہ طریقہ شرعاً درست نہیں تھا،لہذا اس خاتون پراب ایک عمرے کی قضا اور ایک دم لازم ہے،جو حدود حرم میں ہی اد اکرنا ضروری ہے ۔
مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ جو شخص میقات کے باہر سے آئے اور اس کا مکہ مکرمہ جانے کا ارادہ ہو تو اس کے احرام باندھنے کی جگہ میقات ہی ہے اور ماہواری کی حالت میں بھی احرام باندھا جاسکتا ہے ،لہذا اس عورت نے ماہواری کی حالت میں میقات سے عمرے کا احرام باندھا،یہ بالکل درست کیا۔ لیکن پھر جب اس نے مکہ مکرمہ پہنچ کرماہواری سے فارغ ہوکر پہلاعمرہ اداکیے بغیر مسجد عائشہ (رضی اللہ عنہا) جاکر وہاں سے دوبار ہ عمرے کی نیت کرکے احرام باندھا،تو یہ عمل درست نہیں ہوا کہ اس طرح اس خاتون نے عمرے کے دو احراموں کو جمع کرلیا جو کہ شرعاً جائز نہیں ،جس کی وجہ سے وہ گنہگار ہوئی اور دونوں عمروں کی ادائیگی اس پر لازم ہوگئی، پھر چونکہ حکم شرعی یہ ہے کہ جب عمرے کے دو احراموں کو جمع کرلیا جائے تو دونوں میں سےایک عمرے کی نیت توڑنا لازم ہوتا ہے ،اور اُس نیت کے توڑنے کےسبب ایک دم بھی لازم ہوتاہےاور اگر کوئی ایک عمرے کی نیت ختم نہ کرے اور عمرہ شروع کردے تو دو عمروں میں سے ایک عمرے کا احرام خود بخود ہی ختم ہوجاتاہے،لہذا مذکورہ صورت میں اس پردونوں عمروں میں سے ایک عمرے کی نیت ختم کرنا لازم ہوگیا تھا،مگر جب اس نے اُن دو عمروں میں سے ایک عمرے کی نیت ختم کیے بغیر ہی عمرے کا طواف شروع کرلیا، تو ان دو عمروں میں سے ایک عمرے کا احرام خود بخود ختم ہوگیا ، اوراُس عمرے کے رِفض( ترک ) کی وجہ سے اس پرایک دم لازم ہوا،اور اس ختم ہونے والے عمرے کی قضا بھی لازم ہوگئی۔
حرم مکہ داخل ہونے والے کیلئے میقات سے ہی عمرہ یا حج کے احرام کی نیت کرنا واجب ہوتا ہے،چنانچہ لباب المناسک میں ہے: ’’)وحکمھا وجوب الاحرام منھا لاحد النسکین وتحریم تاخیرہ عنھا لمن اراد دخول مکۃ أو الحرم(‘‘ترجمہ:میقات کا حکم یہ ہے کہ جو شخص مکہ یا حرم میں داخل ہونے کا ارادہ کرے،اس کیلئےعمرہ یا حج میں سے کسی ایک کا احرام میقات سے باندھنا واجب ہے اور (جان بوجھ کر)احرام کو میقات سے مؤخر کرنا ،حرام ہے۔(لباب المناسک ،فصل فی مواقیت-الصنف الاول،صفحہ113،مطبوعہ مکۃ المکرمۃ)
جس پر رِفض( ترک ) لازم ہو اس پر رِفض( ترک ) کی نیت کرنا بھی لازم ہے،ہاں اگر سعی سے پہلے دو عمروں کو جمع کرلیا تو ان میں سے ایک کے اعمال شروع کرتے ہی دونوں میں سے ایک کا احرام خود بخود ختم ہوجائے گا،جیسا کہ لباب المناسک میں ہے:’’کل من لزمہ رِفض العمرۃ فعلیہ دم و قضاء عمرۃ۔۔۔وکل من علیہ الرِفض یحتاج الی نیۃ الرِفض الا من جمع بین العمرتین قبل السعی للاولی ۔۔۔ ترتفض احداھما من غیر نیۃ رِفض لکن اما بالسیر الی مکۃ أو الشروع فی اعمال احداھما‘‘ترجمہ:ہر وہ شخص جس پر عمرہ کا رِفض (ترک ) (توڑنا) لازم ہو تو اس پر ایک دم اور عمرہ کی قضا لازم ہوگی۔۔۔اور ہر وہ شخص جس پر رِفض( ترک ) لازم ہو تو اس پر رِفض (ترک ) کی نیت کرنا ضروری ہے مگر یہ کہ جس نے دو عمروں کو پہلے عمرے کی سعی سے پہلے جمع کیا تو رِفض( ترک ) کی نیت کے بغیر ہی ان میں سے ایک عمرے کے احرام کا رِفض( ترک ) خود بخود ہوجائے گا لیکن یہ رِفض( ترک ) یا تو مکہ کی طرف چلنے سے ہوگا یا ان میں سے ایک کے اعمال میں شروع ہونےسے ہوگا۔(لباب المناسک مع شرحہ، باب اضافۃ احد النسکین،صفحہ328،دار الکتب العلمیہ،بیروت)
رد المحتار علی الدر المختار میں ہے"لو جمع بين عمرتين قبل السعي للأولى ترتفض إحداهما بالشروع من غير نية رِفض " ترجمہ:اگر کسی نے پہلےعمرہ کی سعی کرنے سے پہلے ہی دو عمروں کو جمع کرلیا تو عمرہ کو شروع کرتے ہی ،ان میں سے ایک عمرہ بغیر توڑنے کی نیت کے خود بخودختم ہوجائے گا۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد2، صفحہ587، دار الفکر،بیروت)
جب کوئی شخص دو احراموں میں سے ایک احرام کا رِفض( ترک ) کرلے یا اس کا خود بخود رِفض( ترک ) ہوجائے تو اس کے سبب رِفض(ترک ) کا دم لازم ہوتا ہے اور دو احراموں کو جمع کرنےوالا دم لازم نہیں ہوتا۔لہذا پوچھی گئی صورت میں بھی جب ایک عمرے کے احرام کا ترک ہوگیا تو اس کے سبب صرف رِفض( ترک ) احرام کاایک دم لازم ہوگا،عمرے کے دو احراموں کو جمع کرنے کا مزید کوئی دم ہرگز لازم نہیں ہوگا۔چنانچہ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط میں ہے:’’ثم اعلم ان من جمع بین الحجتین أو العمرتین أو حجۃ و عمرۃ ولزمہ رِفض احداھما فرِفضھا،فعلیہ دم للرِفض ،وھل یلزمہ دم آخر للجمع أم لا؟فالمذکور فی عامۃ الکتب ان دم الجمع انما یلزمہ فیما اذا لم یرِفض احداھما،أما اذا رفضھا فلم یذکر فیھا الا دم الرِفض ،بل المفھوم منھا تصریحا وتلویحا عدم لزوم دم الجمع ‘‘ترجمہ:پھر جان لو کہ جو شخص دو حج یا دو عمروں یا حج اور عمرے کو جمع کرلیا اور اس پر ان میں سے ایک کا احرام ختم کرنا لازم ہوا تو اس نے ایک احرام ختم کردیا تو اس پر رِفض( ترک ) کا دم لازم ہوگا،مگر کیا اس پر ایک دم جمع کا بھی لازم ہوگا یا نہیں؟تو عامہ کتب میں جو مذکور ہے وہ یہ ہے کہ جمع کا دم اس صورت میں لازم ہوگا کہ جب وہ ان دو احراموں میں سے ایک کو ختم نہ کرے،بہرحال جب وہ ایک احرام کو ختم کردے تو اس صورت میں صرف رِفض( ترک ) کے دم کے لازم ہونے کو ہی ذکر کیا گیا ہے بلکہ اس سے صراحۃ اور اشارۃ یہی سمجھا گیا ہے کہ اس صورت میں جمع کا دم لازم نہیں ہوگا۔(المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط باب اضافۃ احد النسکین، صفحہ420،مطبوعہ مکۃ المکرمۃ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم