ماں بھتیجے کے ساتھ عمرہ پر جائے تو بیٹی ساتھ جاسکتی ہے؟

والدہ بھتیجے کے ساتھ عمرہ کے لئے جارہی ہوں تو ساتھ بیٹی جا سکتی ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

میری امی اپنے بھتیجے کے ساتھ مدینے شریف جارہی ہیں تو میں اپنی امی کے ساتھ جاسکتی ہوں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

شرعی مسافت یعنی 92کلومیٹر یا اس سے زائدکا راستہ ہو تو آپ کا اپنی امی کے بھتیجے کے ساتھ سفر پر جانا جائز نہیں کیونکہ وہ آپ کے لیے نامحرم ہےاور کسی بھی عورت کو شوہر یا محرم کے بغیر شرعی سفرکرنا، جائز نہیں، خواہ وہ سفر حج و عمرہ کی غرض سے ہو یا کسی اور مقصد کے لیے ہو بلکہ خوفِ فتنہ کی وجہ سے تو علماء ایک دن کی راہ بغیر محرم بھی کے جانے سے منع کرتے ہیں۔

صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

”لا يحل لامرأة تؤمن بالله و اليوم الآخر، أن تسافر سفرا يكون ثلاثة أيام فصاعدا، إلا و معها أبوها، أو ابنها، أو زوجها، أو أخوها، أو ذو محرم منها“

ترجمہ: جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے،اس کے لیے تین دن یا اس سے زیادہ کا سفر کرنا حلال نہیں، مگریہ کہ اس کے ساتھ اس کا باپ، بیٹا، شوہر، بھائی یا اس عورت کا کوئی محرم ہو۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث 1340، ج 2، ص 977، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

فتاوی رضویہ میں ہے: ”عورت اگرچہ عفیفہ یا ضعیفہ ہو، اسے بے شوہر یا محرم سفر کو جانا، حرام ہے۔۔۔ اگر چلی جائے گی گنہگار ہوگی ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا۔“ ( فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 706 ، 707، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”عورت کو مکہ تک جانے میں تین دن یا زیادہ کا راستہ ہو تو اس کے ہمراہ شوہر یا محرم ہونا شرط ہے،خواہ وہ عورت جوان ہو یا بڑھیا۔“ (بہار شریعت، ج 1، حصہ 6، ص 1044، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3858

تاریخ اجراء: 23 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ / 21 مئی 2025 ء