نفلی طواف ادھورا چھوڑ کر وطن واپس لوٹنا

نفلی طواف کے سات چکر نہ لگائے اور وطن واپس آگیا تو کیا حکم؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے كے بارے میں کہ ایک شخص نے نفلی طواف کیا، اس کا یہ گمان تھا کہ نفلی طواف میں سات چکر ضروری نہیں ہوتے، اس لئے اس نے سات چکر پورے نہیں کئے اور کراچی آگیا، ایسے شخص کے لئے کیا حکم ہوگا؟ اسے یہ بھی یاد نہیں کہ کتنے چکر ہوئے تھے اور کتنے باقی رہ گئے تھے، برائے مہربانی اس حوالے سے رہنمائی فرمادیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

دیگر شرعی طواف کی طرح نفلی طواف میں بھی سات چکروں کا ہونا لازم ہے، نیز نفلی طواف شروع کرنے کے بعد اسے پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے، جس کے سبب اسے ادھورا چھوڑنا ناجائز و گناہ ہوتاہے، اور بعض صورتوں میں دم اور بعض صورتوں میں صدقہ بھی لازم آتا ہے، لہذا شخصِ مذکور نفلی طواف ادھورا چھوڑنے کی وجہ سے گنہگار ہوا، جس سے توبہ اس پر لازم ہے۔

پھر چونکہ اسے یاد نہیں کہ کتنے پھیرے ہوئے تھے، تو اولاً وہ یہ یاد کرنے کی کوشش کرے، اگر یاد آجائے فبہا، ورنہ غالب گمان کےمطابق عمل کرے۔ اگر غالب گمان کے مطابق چار یا اس سے زائد پھیرےچھوڑےتھے، تو اِن تمام پھیروں کے بدلے ایک دم لازم ہوگا، اور اگر چار سے کم پھیرے چھوڑے تھے، تو ہر چکر کے بدلے ایک صدقہ فطر دینالازم ہوگا، ہاں! اگر واپس جاکر باقی ر ہ جا نے والے چکروں کو پورا کرلیتا ہے، تو پہلی صورت میں دم اور دوسری صورت میں لازم آنےو الے صدقات ساقط ہوجائیں گے، لیکن بہتر دم و صدقہ دینا ہی ہے۔

نفلی طواف کو ادھورا چھوڑنا حرام ہے، اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”طواف اگرچہ نفل ہو، اس میں یہ باتیں حرام ہیں:۔۔۔ سات پھیروں سے کم کرنا (بھی ان میں شامل ہے۔)“ (فتاویٰ رضویہ، ج 10، ص 744، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

نفلی طواف شروع کردینے سےاِس کا پورا کرناواجب ہوجاتا ہے، مناسک ملا علی قاری میں ہے:

و یلزم ای اتمامہ بالشروع فیہ ای فی طواف التطوع و کذا فی طواف تحیۃ المسجد و طواف القدوم

ترجمہ: نفلی طواف شروع کردیا، تو اب اس کا پورا کرنا واجب ہوگیا یہی حکم طوافِ تحیۃ المسجد اور طوافِ قدوم کا بھی ہے۔ (المسلک المتقسط مع ارشاد الساری، ص 203، مطبوعہ مکۃ مکرمہ)

نفلی طواف کا حکم طواف قدوم والا ہے، چنانچہ لباب المناسک میں ہے

حکم کل طواف تطوع کحکم طواف القدوم

ہر نفلی طواف کا حکم طواف قدوم کے حکم کی طرح ہے۔ (لباب المناسک مع المسلک المتقسط و ارشاد الساری، ص 498، مطبوعہ مکۃ مکرمہ)

اورطوافِ قدوم کا حکم طوافِ صدر والا ہے، علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:

لم يصرحوا بحكم طواف القدوم لو شرع فيه و ترك اكثره او اقله؟ و الظاهر أنه كالصدر لوجوبه بالشروع

ترجمہ: فقہائے کرام نے اس بارے میں تصریح نہیں کی کہ اگر کسی نے طوافِ قدوم شروع کیا اور اس کے اکثریا اقل پھیرے چھوڑ دیئے، تو کیا حکم ہے؟ اور ظاہر یہ ہے کہ طواف شروع کرنے کے سبب واجب ہونے کی وجہ سے یہ طوافِ صدر کی مثل ہے۔ (حاشیۃ ابن عابدین، ج 02، ص 553، دار الفكر، بيروت)

اور طوافِ صدر کے پھیرے ترک کرنے کے حوالے سےصدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمیرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”طوافِ رخصت (جسے طوافِ صدر بھی کہتے ہیں، اس کا) کل یا اکثر ترک کیا، تو دَم لازم اور چار پھیروں سے کم چھوڑا، تو ہر پھیرے کے بدلے میں ایک صدقہ۔“ (بہارِ شریعت، ج 01، ص 1176، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

27 واجبات حج میں ہے: ”اگر میقات سےباہر نکل گیا،تو بھی طوافِ رخصت ادا کرنے کے لئے واپس آنے کا اختیار ہے، مگر بہتریہ ہے کہ دم دے دے۔۔۔ اس (واپس آکر طواف کرنے کی) صورت میں دم ساقط ہوجائیں گے۔“ (تعلیم الناسک واجبات المناسک، ص 175، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

نفلی طواف میں پھیروں کی تعداد کے حوالے سے شک کی صورت میں غالب گمان پر عمل کرنے کا حکم ہے، شامی میں ہے:

لو شك في أشواط غير الركن لا يعيده بل يبني على غلبة ظنه لأن غير الفرض على التوسعة

ترجمہ: غیر فرض طواف میں شک کی صورت میں اعادہ نہ کرے، بلکہ غالب گمان پر بنا کرے، کیونکہ غیر فرض میں خوب وسعت والا معاملہ ہوتا ہے۔ (رد المحتار، ج 02، ص 497،دار الفکر، بيروت)

علامہ مخدوم ہاشم ٹھٹھوی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

اگرطواف غیر فرض است و غیر واجب است اعادہ نکند اورابلکہ بنا کند بر غالب ظن خود

اگر طواف غیر فرض اور غیر واجب ہے،تو اعادہ نہ کرے بلکہ اپنےغالب گمان پر بنا کرے۔(حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیوم در بیان طواف و انواع آن، فصل ہشتم دربیان مسائل متفرقہ بطواف و رکعتین، ق 42، مخطوط)

بہار شریعت میں ہے: ”اور اگر طواف فرض یا واجب نہیں ہے، تو غالب گمان پر عمل کرے۔“ (بہار شریعت، ج 01، ص 1100، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

مذکورہ مسئلہ اگرچہ شک کے متعلق ہے تاہم فقہائے عظام باعتبار حکم شک اور سہو میں فرق نہیں کرتے، علامہ شرنبلالی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

و لا تفرق الفقهاء بين السهو و الشك في الحكم

فقہاء باعتبار حکم سہو اور شک میں فرق نہیں کرتے۔ (حاشیۃ شرنبلالی علی الدرر، ج 01، ص 424، مکتبۃ اولو الالباب)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: HAB-0544

تاریخ اجراء: 24 رمضان المبارک 1446ھ / 25 مارچ 2025ء