مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Fsd-8978
تاریخ اجراء: 03محرم الحرام6144ھ/10جولائی2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عمرے کے طواف کے علاوہ سِلے ہوئے کپڑوں میں جو نفلی طواف کیا جاتا ہے،کیا اس کے بعد بھی دو رکعت پڑھنا واجب ہے یا نہیں؟اگر کسی نے بھول کر یا لاعلمی کی بنا پر نہ پڑھی ہو اور وہ اپنے ملک واپس آ گیا ہو،تو کیا اب اس پر دم لازم ہو گا؟یا کیا حکم ِشرع ہو گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
طواف کوئی بھی ہو(واجب یا نفل ) اس کے سات چکر مکمل کرنے کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے ،اگر کسی نے نہ پڑھی ،تو یہ ذمہ سے ساقط نہیں ہو گی،ادا ہی کرنی ہو گی،لیکن چھوڑنے سے راجح قول کے مطابق دم واجب نہیں ہو گا،البتہ افضل یہ ہے کہ نمازِ طواف مقامِ ابراہیم کے پاس ادا کی جائے،وہاں جگہ نہ ملے تو مسجد الحرام میں جہاں میسر ہو وہاں پڑھ لی جائے اور اگر کسی نے حدودِ حرم سے باہر اپنے ملک میں ادا کی ،تو بھی جائز ہے،مگر بلاضرورت ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
نوٹ:طواف مکمل کرنے کے بعددو رکعت نمازِطواف ادا کرنے میں اس بات کا لحاظ ضروری ہے کہ اوقات ممنوعہ (طلوعِ آفتاب کے وقت،ضحوی کبریٰ کے وقت اور غروب آفتاب کے وقت)میں ادا نہ کی جائے،بلکہ ممنوع اوقات گزر جانے کے بعد ادا کی جائے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :”ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قدم،فطاف بالبیت سبعا ثم صلی رکعتین۔قال وکیع یعنی: عند المقام ثم خرج الی الصفا“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائےاور بیت اللہ کا سات بار طواف کیا،پھر طواف کی دو رکعتیں پڑھیں ۔وکیع کہتے ہیں یعنی مقام ابراہیم کے پاس پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی کی طرف نکلے۔ (صحیح البخاری،کتاب الحج،ج10،ص 220،مطبوعہ کراچی)
نمازِ طواف کےوجوب اور اس کو ترک کرنے کی تفصیل کے متعلق علامہ شیخ سندھی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:”رکعتی الطواف وھی واجبۃ بعد کل طواف،فرضا کان او واجبا او سنۃ او نفلاولا تختص بزمان ولا مکان ولا تفوت “ترجمہ:طواف(کے بعد) کی دو رکعتیں ہر طواف کے بعد واجب ہیں،چاہے وہ طواف فرض ہویا واجب ہو یاسنت ہو یا نفل ہواور یہ( دو رکعتیں) کسی مخصوص وقت اور جگہ کے ساتھ خاص نہیں ہیں اور نہ ہی یہ قضا ہوتے ہیں۔(لباب المناسک،صفحہ114،مطبوعہ دارقرطبہ)
حدودِ حرم سے باہر اپنے مُلک میں پڑھنے کے جواز کے بارے میں علامہ شیخ سندھی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”فلو ترکھا لم تجبر بدم،ولو صلاھا خارج الحرم ولو بعد الرجوع الی وطنہ جاز “ترجمہ: اگر کسی نےان کو ترک کیا،تو اس کی تلافی دم کے ساتھ نہیں کی جائے گی اور اگر کسی نے ان کو حدودِ حرم سے باہر ادا کیا، اگرچہ اپنے وطن میں لوٹنے کے بعد ادا کیا،تب بھی جائز ہے۔(لباب المناسک،صفحہ114،مطبوعہ دارقرطبہ)
مزید ایک مقام پر لکھتے ہیں: ”ولو ترك ركعتي الطواف لا شيء عليه، ولا تسقطان عنه، وعليه أن يُصليهما ولو بعد سنين “ ترجمہ:اگر کسی نے طواف کی دو رکعتیں نہیں پڑھیں ،تو اس پر کچھ بھی لازم نہیں ہوگا ،وہ ذمہ سے ساقط نہیں ہوں گی ،بلکہ چھوڑنے والے پر ان کو پڑھنا لازم ہوگا،اگرچہ کئی سال بعد پڑھے۔(لباب المناسک ،صفحہ218،مطبوعہ دار قرطبہ )
مقام ابراہیم کے پاس نوافل ادا کرنے کے افضل ہونے کے متعلق لباب المناسک مع المسلک المتقسط میں ہے:”( افضل الاماکن لادائھا خلف المقام) وفی معناہ ماحولہ من قرب المقام(ثم فی الکعبۃ )ای داخلھا“ ترجمہ:نمازِ طواف ادا کرنے کے لیے افضل جگہ مقام ا بر اہیم کے پیچھے یعنی مقام ابراہیم کے قرب میں پھر(افضل جگہ) کعبہ کے اندر ہے۔(المسلک المتقسط مع لباب المناسک ،فصل فی رکعتی الطواف،220،مطبوعہ مکۃ المکرمہ)
امام کمال الدین ابنِ ھُمَّام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتےہیں:”ثم يأتي المقام فيصلي عنده ركعتين أو حيث تيسر من المسجد و هي واجبة عندنا“(طواف مکمل کرنے کے بعد)پھر مقام ابراہیم کے پاس آکردو رکعتیں نماز پڑھےیا مسجد حرام میں کسی اور جگہ پر جہاں آسانی ہو وہاں نماز پڑھےاور یہ نوافل ہمارے نزدیک واجب ہیں۔(فتح القدیر، جلد2، صفحہ456، مطبوعہ دار الفکر،لبنان)
مکروہ وقت میں نماز ادا کرنے کی ممانعت سے متعلق صحیح بخاری شریف کی حدیثِ مبارک ہے:”عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و سلم یقول لا صلوٰۃ بعد الصبح حتیٰ ترتفع الشمس ولا صلوٰۃ بعد العصر حتیٰ تغیب الشمس“ترجمہ: حضرتِ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ صبح کی نماز کے بعد نماز نہیں،یہاں تک کہ آفتاب بلند ہوجائے اور عصر کے فرض ادا کرنے کے بعد نماز نہیں یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے۔(صحیح البخاری،کتاب مواقیت الصلوٰۃ، جلد 01، صفحہ83،82،مطبوعہ کراچی )
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:”طواف کے بعد مقامِ ابراہیم میں آکر آیہ کریمہ﴿وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلًّی ؕ﴾پڑھ کردو رکعت طواف پڑھے اور یہ نماز واجب ہے،پہلی میں قُلْ یَادوسری میں قُلْ ھُوَ اللہ پڑھے بشرطیکہ وقتِ کراہت،مثلاًطلوع صبح سے بلندی آفتاب تک یا دوپہر یا نمازِ عصر کےبعد غروب تک نہ ہو، ورنہ وقتِ کراہت نکل جانے پر پڑھے۔“(بھار شریعت،ج2،ص1102،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا 65 سال کی بیوہ بھی بغیر محرم کے عمرے پر نہیں جاسکتی؟
کسی غریب محتاج کی مددکرناافضل ہے یانفلی حج کرنا؟
کمیٹی کی رقم سے حج وعمرہ کرسکتے ہیں یانہیں؟
عورت کا بغیر محرم کے عمرے پر جانے کا حکم؟
ہمیں عمرے پر نمازیں قصرپڑھنی ہیں یا مکمل؟
جومسجد نبوی میں چالیس نمازیں نہ پڑھ سکا ،اسکا حج مکمل ہوا یانہیں؟
جس پر حج فرض ہو وہ معذور ہو جائے تو کیا اسے حج بدل کروانا ضروری ہے؟
کیا بطور دم دیا جانے والا جانور زندہ ہی شرعی فقیر کو دے سکتے ہیں؟