
مجیب: مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Nor-13732
تاریخ اجراء:06رمضان المبارک 1446 ھ/07مارچ 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سعی کے ساتوں پھیرے لگاتار کرنا سنت ہے، بغیر کسی عذر کے سعی کے پھیروں میں زیادہ فاصلہ کرنا شرعاً مکروہ و ناپسندیدہ ہے۔
سعی کے پھیرے پے درپے کرنا سنت ہے،جیسا کہ’’مناسک الملا علی القاری‘‘میں ہے:”(فصل: فی سننہ) ای سنن السعی، و ھی خمس۔۔۔۔۔۔(و الموالاۃ بین اشواطہ) “یعنی سعی کی سنتوں کا بیان اور وہ پانچ سنتیں ہیں:۔۔۔۔ انہی میں سے ایک سنت سعی کے پھیرے لگاتار کرنا بھی ہے۔(مناسک الملا علی قاری، ص 254، مطبوعہ مکۃ مکرمہ، ملتقطاً)
سعی کے پھیروں کے مابین بغیر عذر کے فاصلہ کرنا مکروہ ہے،جیسا کہ فتاوٰی شامی میں ہے:”في اللباب: ولا مفسد للطواف وعد من مكروهاته تفريقه أي الفصل بين أشواطه تفريقا كثيرا وكذا قال في السعي بل ذكر في منسكه الكبير لو فرق السعي تفريقا كثيرا كأن سعى كل يوم شوطا أو أقل لم يبطل سعيه ويستحب أن يستأنف “ترجمہ: لباب میں ہے کہ طواف کو فاسد کرنے والی کوئی چیز نہیں اور اس کے پھیروں کے مابین فاصلہ کرنے کو مکروہات میں شمار فرمایا ہے یعنی طواف کے پھیروں کے مابین بہت زیادہ فاصلہ کرنا، مکروہ ہے۔ اسی طرح انہوں نے سعی کے بارے میں فرمایا بلکہ اپنی "منسک الکبیر" میں ذکر فرمایا کہ اگر کوئی شخص سعی کے پھیروں میں بہت زیادہ فاصلہ کرے ،مثلا: وہ ہر دن میں ایک یا ایک سے بھی کم پھیرا لگائے، تو اس کی سعی باطل نہیں ہوگی،البتہ مستحب یہ ہے کہ وہ اُس سعی کو نئے سرے سے ادا کرے۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الحج، ج 03، ص 582، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوٰی رضویہ میں ہے:”سعی میں یہ باتیں مکروہ ہیں:بے حاجت اس کے پھیروں میں زیادہ فصل دینا مگر جماعت قائم ہوتو چلا جائے،یونہی شرکتِ جنازہ یا قضائے حاجت یا تجدید وضو کواگر چہ سعی میں ضرور نہیں ۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 10، ص 745، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم