
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہندہ کی ملکیت میں اتنا مال ہے کہ جس بنا پر حج فرض ہوتا ہے، اس کا بالغ بھائی حج پر جا رہا ہے، ہندہ اس کے ساتھ حج پر جانا چاہتی ہے، لیکن اس کا شوہر خالد اسے فرض حج کی ادائیگی کے لئے جانے کی اجازت نہیں دے رہا، کہتا ہے کہ تم پر میری اطاعت لازم ہے، اگر تم میری اجازت کے بغیر حج کے لئے گئی، تو گنہگار ہو گی، شرعی رہنمائی فرمائیں کہ ایسی صورت میں ہندہ شوہر کی اجازت کے بغیر حج پر جا سکتی ہے؟ اور اگر جائے، تو کیا گنہگار ہو گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر کسی کے پاس اپنی ضروریات سے زائد اتنا مال موجود ہے کہ وہ حج پر جانے سے واپس آنے تک سواری، رہائش اور کھانے پینے وغیرہ کے ضروری اخراجات پر قادر ہے، تو اس پر حج فرض ہے، نیز عورت پر حج کی ادائیگی لازم ہونے کے لیے اس کے ہمراہ شوہر یا کسی قابلِ اعتماد محرم کا ہونا بھی شرط ہے اور جب یہ شرائط پائی جائیں، تو عورت کے لیےاُسی سال حج کرناضروری ہے، کیونکہ حدیثِ پاک میں حج فرض ہونےکےبعد اسے جلد ادا کرنے کا حکم ہے اور ایسی صورت میں شوہر کا عورت کوفرض حج سےمنع کرنا، جائز نہیں اور نہ ہی محرم موجود ہونے کی صورت میں شوہر کی اجازت ضروری ہے، لہٰذا جب فرض حج کے لیے شوہر کی اجازت ضروری نہیں، تو شوہر کی اجاز ت کے بغیر جانے سے عورت گناہ گار بھی نہیں ہوگی، کیونکہ شوہر کی اطاعت جائز کاموں میں ہے، اگر وہ کسی ناجائز بات کاحکم کرے، تو اس میں اس کی اطاعت جائز نہیں بلکہ ایسی صورت میں شوہر روک کر گناہ گار ہوگا۔ صرف نفل حج کے لئے شوہر کی اجازت ضروری ہے۔
حج فرض ہونے کے لیے "استطاعت کے دائرۂ کار" کے متعلق فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
”وتفسير ملکالزاد والراحلة أن يكون له مال فاضل عن حاجته، وهو ما سوى مسكنه ولبسه وخدمه، وأثاث بيته قدر ما يبلغه إلى مكة ذاهبا وجائيا راكبا لا ماشيا وسوى ما يقضي به ديونه ويمسك لنفقة عياله، ومرمة مسكنه ونحوه إلى وقت انصرافه “
ترجمہ: زادِ راہ اور سواری کا مالک ہونے کا معنیٰ یہ ہے کہ یہ چیزیں اس کی ضرورت سے زائد ہوں اور مکان، لباس، خادم اور خانہ داری کے سامان کے علاوہ جو مال اتنی مقدار ہو کہ اس کے ذریعے پیدل چل کر نہیں، سواری پر مکہ مکرمہ جا کر واپس آ سکتا ہو، نیز اتنا مال اور ہو کہ قرض ہو، تو ادا کیا جا سکے اور واپس آنے تک اہل و عیال کا خرچ اور گھر وغیرہ کی ضروری مرمت کے لیے بھی کافی ہو (تو حج فرض ہے)۔ (فتاوی عالمگیری، جلد 1، صفحه 217، مطبوعہ کوئٹہ)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: ’’(حج فرض ہونے کی ساتویں شرط یہ ہے کہ ) سفرخرچ کا مالک ہواور سواری پر قادر ہو، خواہ سواری اس کی ملک ہو یا اس کے پاس اتنامال ہو کہ کرایہ پر لے سکے ...سفر خرچ اور سواری پر قادر ہونے کے یہ معنی ہیں کہ یہ چیزیں اُس کی حاجت سے فاضل ہوں یعنی مکان و لباس و خادم اور سواری کا جانور اور پیشہ کے اوزار اور خانہ داری کے سامان اور دَین سے اتنا زائد ہو کہ سواری پر مکہ معظمہ جائے اور وہاں سے سواری پر واپس آئے اور جانے سے واپسی تک عیال کا نفقہ اور مکان کی مرمت کے لیے کافی مال چھوڑجائے اور جانے آنے میں اپنے نفقہ اور گھر اہل وعیال کے نفقہ میں قدرِ متوسط کا اعتبار ہے۔ نہ کمی ہو نہ اِسراف۔ عیال سے مراد وہ لوگ ہیں، جن کا نفقہ اُس پر واجب ہے، یہ ضروری نہیں کہ آنے کے بعدبھی وہاں اور یہاں کے خرچ کے بعد کچھ باقی بچے۔‘‘(بھار شریعت، جلد1، حصہ6، صفحہ1040، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی )
عورت پر حج کی ادائیگی کے لیے محرم یا شوہر کا ساتھ ہونا، شرط ہے، چنانچہ صحیح مسلم کی حدیثِ پاک میں ہے:
”عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لا یحل لامرأۃ تؤمن باللہ و الیوم الاخر ان تسافر سفراً یکون ثلاثۃ ایام فصاعداً الا ومعھا ابوھا او ابنھا او زوجھا او اخوھا او ذومحرم منھا “
ترجمہ: حضرت سیدنا ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے، اس کے لیے تین دن یا اس سے زیادہ کا سفر کرنا حلال نہیں ہے، مگر جبکہ اس کے ساتھ اس کا باپ یا بیٹا یا شوہر یا بھائی یا اس کا کوئی محرم ہو۔ (صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 434، مطبوعہ کراچی)
بدائع الصنائع میں ہے:
”واما الذی یخص النساء فشرطان احدھما ان یکون معھا زوجھا او محرم لھا فان لم یوجد احدھما لایجب علیھا الحج وھذا عندنا “
ترجمہ: ”بہرحال وہ( شرائط )کہ جو عورتوں کے ساتھ خاص ہیں، وہ دو شرطیں ہیں، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ عورت کےساتھ سفرِ حج میں اُس کا شوہر یا کوئی دوسرا محرم ہو، تواگر اِن دونوں میں سےکوئی موجود نہ ہو، تو اُس عورت پر حج (کی ادائیگی) فرض نہیں، یہی ہمارا مذہب ہے۔ “(بدائع الصنائع، کتاب الحج، جلد3، صفحہ 54، مطبوعہ کوئٹہ)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”عورت اگرچہ عفیفہ (پاکدامن ) یا ضعیفہ (بوڑھی ) ہو، اسے بے شوہر یا محرم سفر کو جانا، حرام ہے، اگر چلی جائے گی، گنہگار ہوگی، ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا۔ “(فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 706، 707، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
فرضیتِ حج کے بعد اُسی سال حج کرنا ضروری ہونےکے متعلق سننِ ابنِ ماجہ میں ہے:
”قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: من أراد الحج، فليتعجل “
ترجمہ: ”رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشادفرمایا: جو حج کاارادہ رکھتاہو، توچاہیےکہ اس (کواداکرنے) میں جلدی کرے۔ “ (سنن ابوداؤد، کتاب المناسک، جلد1، صفحہ254، مطبوعہ لاھور)
مذکورہ بالا حدیثِ مبارک کے تحت علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:
”والأصح عندنا أن الحج واجب على الفور “
ترجمہ: اور ہمارے نزدیک اصح یہی ہےکہ حج (فرض ہونے کے بعد ) فوری ادا کرنا، واجب ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب المناسک، جلد5، صفحہ436، مطبوعہ کوئٹہ)
فرض حج کی ادائیگی سے شوہر کا منع کرنا، جائز نہیں، البتہ نفل حج سے منع کر سکتا ہے، جیساکہ درِمختار مع ردالمحتار میں ہے:
”لیس لزوجھا منعھا عن حجۃ الاسلام أي: اذا کان معھا محرم والا فلہ منعھا کما یمنعھا عن غیر حجۃ الاسلام “
ترجمہ: شوہر کا اپنی بیوی کو فرض حج کی ادائیگی سے منع کرنا جائز نہیں، یعنی جب اُس کے ساتھ کوئی محرم موجود ہو، ورنہ روک سکتا ہے، جس طرح نفل حج سے روک سکتا ہے۔ (درمختار مع ردالمحتار، کتاب الحج، جلد3، صفحہ533، مطبوعہ کوئٹہ)
خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں، چنانچہ صحیح بخاری شریف کی حدیثِ مبارک ہے:
”عن علی رضي اللہ عنه ان النبی صلیٰ اللہ علیہ و اٰلہ و سلم قال لا طاعۃ فی معصیۃ اللہ انما الطاعۃ فی المعروف“
ترجمہ: حضرتِ علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عزوجل کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں، بلکہ مخلوق کی اطاعت تو فقط بھلائی والوں کے کاموں میں ہی جائز ہے۔ (صحیح البخاری، جلد 2، صفحہ1078، 1077، مطبوعہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD- 9319
تاریخ اجراء: 23 شوال المکرم 1446 ھ / 22 اپریل 2025 ء