
فتوی نمبر:Pin-7556
تاریخ اجراء:28 رجب المرجب1446ھ29جنوری 2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ طواف کے نوافل بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
طواف کے نوافل بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں، البتہ اگر کوئی عذر نہ ہو، تو کھڑے ہو کر ہی ادا کرنے چاہئیں کہ بلاعذر بیٹھ کر نوافل ادا کرنے سے کھڑے ہوکر پڑھنے کے مقابلے میں ثواب آدھارہ جاتا ہے۔
تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے کہ طواف کی دو رکعتیں بنیادی طور پر نفل نماز ہے، جسے بندہ خود پر اپنے عمل (طواف مکمل کرنے) سے واجب کرلیتاہے، اسے "واجب لغیرہ" بھی کہتے ہیں،اسے ادا کرنا تو واجب ہوتا ہے، لیکن بعض احکام میں یہ نماز، نفل کے حکم میں ہی باقی رہتی ہےاور شرعی حکم کے مطابق نوافل میں قیام لازم نہیں، کیونکہ نفل میں قیام ایک زائد وصف ہے، اسی لیے انہیں بیٹھ کر پڑھنا بھی درست ہے، تو اگر کوئی اپنے اوپر نفل لازم کر لے، تو اس کا وصفِ زائد (قیام) از خود لازم نہیں ہو جائے گا۔ اس کی مثال منت کے نوافل ہیں، کہ اگر کوئی بندہ نفل پڑھنے کی منت مان لے، تو بیٹھ کر بھی پڑھ سکتا ہے، لہذا طواف کے نوافل بھی اگرچہ بندے نے (طواف کرنے کے سبب)اپنے اوپر لازم کر لیے ہیں، لیکن ان میں قیام کا وصف لازم نہیں ہو گا، لہذا انہیں بھی بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں۔ البتہ بلا عذر بیٹھ کر نفل پڑھنے میں کھڑے ہوکر پڑھنے کے مقابلے میں ثواب آدھا رہ جاتا ہے، لہذ احتی الامکان قیام کے ساتھ ہی ادا کرنے چاہئیں، بالخصوص حرمِ پاک میں اس کا خاص خیال رکھیں کہ حرم میں ایک نیکی ایک لاکھ نیکی کے برابر ہے۔
طواف کے نوافل واجب لغیرہ ہیں اور واجب لغیرہ (بعض احکام میں) نفل سے ملحق ہوتے ہیں۔ در مختار میں ہے:’’(کل ما کان واجباً لغیرہ) وھو ما یتوقف وجوبہ علی فعلہ (کمنذور ورکعتی طواف وسجدتی سھو والذی شرع فیہ ثم افسد)۔۔۔الخ ‘‘ ترجمہ: ہر واجب لغیرہ (یہ وہ نماز ہے)کہ جس کا وجوب بندے کے فعل پر موقوف ہو، جیسے منت، طواف کی رکعات ۔۔۔الخ۔(ملتقطاً ازدر مختار، کتاب الصلوۃ، جلد 2، صفحہ 44، مطبوعہ پشاور)
تبیین الحقائق میں ہے:’’كل ما كان واجبا لغيره كالمنذور وركعتي الطواف والذي شرع فيه، ثم أفسده ملحق بالنفل حتى لا يصليها في هذين الوقتين ‘‘ ترجمہ: ہر واجب لغیرہ، جیسے منت اور طواف کی رکعات اور وہ نفل جسے شروع کر کے فاسد کر دیا، یہ نفل سے ملحق ہے، حتی کہ اسے دو اوقات (بعد طلوعِ فجر و نماز عصر) نہیں پڑھیں گے۔(تبیین الحقائق، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 87، مطبوعہ ملتان)
نفل نماز بیٹھ کر بھی پڑھ سکتے ہیں کہ نفل میں قیام ایک زائد وصف ہے۔ ہدایہ شریف میں فرمایا:”ويصلي النافلة قاعدا مع القدرة على القيام۔۔ وان افتتحها قائماً ثم قعد من غير عذر جاز عند ابی حنيفة رحمه اللہ وهذا استحسان “ترجمہ:اور قیام پر قدرت کے باوجود نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا درست ہے، ۔۔ اور(اسی لیے) اگر نفل کھڑے ہوکر شروع کیے ،پھربغیر کسی عذر کے بیٹھ گیا، تو امام اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک جائز ہے اور یہ استحسان ہے ۔(الھدایۃ ، کتاب الصلوۃ، جلد1،صفحہ156، مطبوعہ لاھور)
اسی لیے منت کے نوافل میں قیام از خود لازم نہیں ہو گا۔ برہان الاسلام امام رضی الدین محمد بن محمد سرخسی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’ لو نذر ان یصلی مطلقاً لم یلزمہ القیام وھو الصحیح، لان القیام زیادۃ صفۃ فی التطوع فلا یلتزم الا بالشرط “ترجمہ: اگر کسی نے مطلق نماز کی منت مانی تو اس پر قیام لازم نہیں،یہی صحیح قول ہے،کیونکہ قیام نفل نماز میں ایک زائد وصف ہے، لہذا بغیر شرط کیے لازم نہیں ہوگا ۔ (المحیط الرضوی، کتاب الصلوۃ ، جلد1، صفحہ 271، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
علامہ محقق شیخ ابراہیم حلبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اذا نذر ولم یلتزم فی نذرہ صفۃ القیام وقال فی الکافی: لم یلزمہ القیام فی الصحیح، لان القیام وراء ما یتم بہ التطوع، فلا یلزمہ الا بالتنصیص علیہ‘‘ ترجمہ: جب کسی شخص نے نماز کی منت مانی اور اس میں قیام کو ذکر نہیں کیا، کافی میں ہے: صحیح قول کے مطابق قیام لازم نہیں ہو گا، کیونکہ نفل نماز کی تکمیل میں جو چیزیں لازم ہیں، ان میں قیام ایک اضافی چیز ہے اور یہ نفل میں تب ہی لازم ہو گا جب اس کی صراحت مذکور ہو۔ (غنیۃ المتملی، فصل فی النوافل، صفحہ 396، مطبوعہ کوئٹہ)
نفل نما زکھڑے ہوکرپڑھنا افضل ہے،بلا عذر بیٹھ کر پڑھنے سےثواب آدھا رہ جاتاہے۔ حضرت سیدنا ابن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، مجھے حضرت عمران بن حصین (رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ:” سألت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم عن صلاة الرجل قاعدا، فقال: إن صلى قائما فهو أفضل ومن صلى قاعدا، فله نصف أجر القائم “ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سےآدمی کے بیٹھ کر(نفل)نماز پڑھنے کے بارے میں دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اگر وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھے تو افضل ہے ،اور جس نے بیٹھ کر نماز پڑھی اسے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے کی بنسبت آدھا ثواب ملے گا۔(صحیح البخاری، ابواب تقصیر الصلاۃ ،جلد 1،صفحہ 150،مطبوعہ کراچی)
علامہ حسن بن عمار شرنبلالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”يجوز النفل قاعدا مع القدرة على القيام لكن له نصف أجر القائم إلا من عذر“ترجمہ:قیام پر قدرت کے باوجود بیٹھ کر نوافل ادا کرنا ،جائز ہے، لیکن بیٹھ کر نوافل ادا کرنے والے کو،کھڑے ہو کر نوافل ادا کرنے والے کی بنسبت آدھا ثواب ملے گا ،مگر کوئی عذر ہو (تو بیٹھ کر بھی نوافل ادا کرنے میں مکمل ثواب ملے گا)۔(نور الایضاح،کتاب الصلاۃ،فصل فی الصلاۃ جالسا الخ،ص 81، المكتبة العصرية)
حرم میں ایک نیکی ایک لاکھ نیکی کے برابرہے۔ سنن ابن ماجہ میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من أدرك رمضان بمكة فصامه وقام منه ما تيسر له، كتب اللہ له مائة ألف شهر رمضان فيما سواها‘‘ترجمہ: جس نے مکہ مکرمہ میں ماہِ رمضان پایا اور اُس کے روزے رکھے اور جتنا میسر آیا، قیام کیا، تو اللہ تعالیٰ اُس کے لیے مکہ کے علاوہ کسی اور مقام پر ایک لاکھ رمضان کے مہینوں کے برابر ثواب عطا فرمائے گا۔ (سنن ابن ماجۃ، کتاب المناسک، باب صوم شهر رمضان بمكہ، صفحہ225، مطبوعہ کراچی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم