
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے ایک دوست پاکستان سےعمرہ کرنےگئے،انہوں نےعمرہ کرنےکےبعدحلق یاقصرنہیں کروایا،بلکہ مقام تنعیم میں مسجدعائشہ زیارت کےلیےچلےگئے اوروہیں تنعیم کے مقام پرہی عدم علم کی وجہ سےعمرےکاحلق کروالیا، دریافت طلب امریہ ہے کہ اس طرح کرنےسےان پردم لازم ہےیانہیں؟اگردم لازم ہو،تودم کےبجائےاس کی رقم یہاں پاکستان میں ہی شرعی فقیر کودے سکتےہیں یانہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کا حدود حرم سے باہر مقام تنعیم پر عمرے کا حلق کروانا اگرچہ عدم علم کی وجہ سےہو،ترک واجب،ناجائز وگناہ ہے،جس سے توبہ کرنا اس پر لازم ہے اور اس پر اس واجب کو چھوڑنے کی وجہ سے ایک دم واجب ہے ۔اور اس صورت میں دم کی جگہ اتنی رقم کسی شرعی فقیرکونہیں دے سکتے۔
مزیدتفصیل یہ ہےکہ عمرےکےمناسک کی ادائیگی کےبعدحدودحرم میں ہی حلق یاقصرلازم ہوتاہے ،کیونکہ حلق یاقصرکےلیےحرم کامکان خاص ہےاورحر م سے باہرحل یاآفاق میں اگرکوئی حلق یاقصرکرتاہے، تو اس پر دم لازم ہوجاتاہے،اگرچہ حرم سےباہرحلق کروانےپربھی احرام کی پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں اورمقام تنعیم حدودحرم سے باہر حل میں واقع ہے،لہذاوہاں عمرے کاحلق کروانے کی وجہ سے دم لازم ہےاوردم کے بجائے پیسے وغیرہ نہیں دے سکتے ،کیونکہ بلاکسی عذرکے جرم ، جرم اختیاری ہےاور جرمِ اختیاری کے ارتکاب پر جہاں دم واجب ہو،وہاں دم دینا ہی لازم ومتعین ہوتا ہے،تواس کی بجائے روزے رکھنایا صدقہ دینایامحض توبہ کر لینا کافی نہیں ہوتا،بلکہ دم ہی دیناہوتاہے،اس کےبجائے کوئی اورچیزکفایت نہیں کرتی، البتہ دم کی ادائیگی فی الفور لازم نہیں ہوتی، بلکہ بعد میں بھی دیا جاسکتا ہے،اس میں تاخیرگناہ نہیں ہے ۔یاد رہے دم سے مراد قربانی کی شرائط پر پورا اترنے والا ایک جانور(بکرا، بکری،بھیڑ وغیرہ)حدودحرم میں ذبح کرناہے۔
رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:
’’يجب دم لو حلق للحج أو العمرة في الحل لتوقته بالمكان‘‘
ترجمہ:اگر کسی شخص نے حج یا عمرہ کا حلق حِل میں کیا، تو اُس پر ایک دم واجب ہے، کیونکہ حلق کا حکم حدودِ حرم سے مخصوص ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد 07، صفحہ 246 ، دار الثقافۃ والتراث، دمشق)
امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتے ہیں:’’حلق حرم میں نہ کیا، حدودِ حرم سے باہر کیا ۔۔۔تو دم ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ ، جلد10،صفحہ761، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
مقام تنعیم مسجد عائشہ حدودحرم سے باہر مقام حل میں واقع ہے ،جیسا کہ ’’ ستائیس واجبات حج‘‘ میں ہے:’’ مکہ مکرمہ میں رہنے والا شخص اگر عمرہ کرنا چاہتا ہے ،تو اس کو حدودِ حرم سے باہر جاکر احرام باندھنا ضروری ہوگا ۔حرم کی حدود کے اندرسے احرام نہیں باندھ سکتا،حرم کی حدود کے باہر جہاں سے بھی چاہے احرام باندھ سکتا ہے ، افضل یہ ہے کہ مقامِ تنعیم یعنی مسجدِ عائشہ سے احرام باندھے(کہ وہ حرم سےباہرہے)۔‘‘ (ملخص ازستائیس واجباتِ حج، صفحہ 52،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مناسک علی القاری میں ہے:
” اذا فعل شیئا من ذلک علی وجہ الکمال ای مما یوجب جنایۃ کاملۃ بان لبس یوما او طیب عضوا کاملا ونحو ذلک فان کان ای فعلہ بغیر عذر فعلیہ الدم عینا ای حتما معینا وجزما مبینا لایجوز عنہ غیرہ بدلا اصلا “
ترجمہ:جب محرم نے مذکورہ کسی چیز کو علی وجہ الکمال کیا یعنی اتنی مقدار میں کہ جس سے جنایت کامل ہو جائے، مثلاً: ایک دن لباس پہنا یا ایک پورے عضو کو خوشبو لگالی وغیرہ تو اگر محرم نے کسی عذر کے بغیر ارتکابِ جرم کیا ہو، تو اس پر معین و لازمی طور پر دم دینا واجب ہے ، اس کے علاوہ کوئی چیز اس کا بدل اصلاً نہیں ہو سکتی ۔ (مناسک علی القاری ، صفحہ551،مکۃ المکرمہ)
مناسک علی القاری میں ہے:
” حیث وجب الدم عینا لایجوز عنہ ای بدلہ غیرہ من الصدقۃ والصوم والقیمۃ ای لا قیمۃ الھدی ولا قیمۃ الصدقۃ وانما یسقط بالاراقۃ فی الحرم “
ترجمہ:جہاں معین طور پر دم واجب ہے ، اس کے بدلے کوئی دوسری شے یعنی صدقہ فطر ادا کرنا یا روزہ رکھنا یا صدقہ فطر یا ہدی کی قیمت دینا جائز نہیں ، بلکہ حرم میں دم کا جانور قربان کرنے سے ہی دم ساقط ہو گا ۔(مناسک علی القاری ، صفحہ569، مکۃ المکرمہ)
امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتےہیں:” اگر بے عذر ایک دن کامل یا ایک رات کامل یا اس سے زائد سر چھپا رہا، تو خاص حرم میں ایک قربانی ہی کرنی ہو گی جب چاہے کرے ، دوسرا طریقہ کفارہ کا نہیں۔ “ (فتاوی رضویہ ، جلد10، صفحہ713، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
مناسک علی القاری میں ہے:
”(والتخصيص) أي في التوقيت للتضمين أي بالدم (لا) للتحلل فلو حلق أو قصر في غير ما توقت به لزمه الدم، ولكن يحصل به التحلل في أي مكان وزمان‘‘
ترجمہ:مکان کی تخصیص وتوقیت فقط وجوبِ دم کے معاملے میں ہے، احرام سے نکل جانے کے معاملے میں نہیں، لہذا اگر کوئی شخص مخصوص جگہ (حرم) کے علاوہ حلق یا قصر کرواتا ہے، تو اُس پر دم لازم آئے گا، لیکن وہ احرام کی پابندیوں سے ضرور باہر آ جائے گا، خواہ وہ کسی بھی جگہ یا وقت حلق کروائے۔ (مناسک علی القاری ،صفحہ 325، مکۃ المکرمہ)
لباب المناسک میں ہے:
” اعلم ان الکفارات کلھا واجبۃ علی التراخی فلایاثم بالتاخیر عن او ل وقت الامکان ویکون مودیا لا قاضیا فی ای وقت ادیٰ وانما یتضیق علیہ الوجوب فی آخر عمرہ فی وقت یغلب علی ظنہ ان لو لم یؤدہ لفات فان لم یؤد فیہ فمات اثم ویجب علیہ الوصیۃ بالاداء والافضل تعجیل اداء الکفارات “
ترجمہ:جان لو کہ تمام کفارے علی التراخی واجب ہیں، لہذاادائیگی پر قادر ہونے کے باوجود تاخیر کرنے پر گنہگار نہیں ہو گا ، جب بھی ادا کرے گا ، ادا ہی ہو گا ،قضا نہیں ہو گا، البتہ عمر کے آخری حصے میں جب اسے موت کا ظن غالب ہو جائے کہ اب ادا نہ کیا تو کفارہ ذمہ پر باقی رہ جائے گا، تو اسی وقت کفارہ ادا کرنے کا وجوب متوجہ ہو گا اور بغیر ادا کیے فوت ہو گیا، تو گنہگار ہوا اور کفارہ ادا کرنے کی وصیت کرنا اس پر واجب ہے ۔ افضل یہ ہے کہ کفارے جلدی ادا کر دے۔ (لباب المناسک، صفحہ542، مکۃالمکرمہ )
امامِ اہلِ سُنَّت ، امام اَحْمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتےہیں:’’اِس فصل میں جہاں دم کہیں گے اس سے مراد ایک بھیڑ یا بکری ہوگی، اوربدنہ اونٹ یا گائے، یہ سب جانور اُن ہی شرائط کے ہوں، جوقربانی میں ہوں۔‘‘(فتاویٰ رضویہ ، جلد10، صفحہ757، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: Lar-13351
تاریخ اجراء:15 ذو العقعدۃ الحرام 1446 ھ/13مئی 2025ء