
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کوئی فیملی وزٹ کے لئے سعودی عرب میں آرہی ہو اور وہ جہاز میں صرف احرام کی نیت کر لیں لیکن احرام نہ پہنیں پھر وہ اپنی رہائش گاہ سے احرام باندھ کر عمرہ کریں تو کیا عمرہ ہوجائے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
آفاقی (یعنی میقات سے باہر کا رہنے والا شخص) جب مکہ مکرمہ یا حدود حرم میں کسی جگہ جانے کا ارادہ کرے، اگرچہ وہ وزٹ یا کسی دوسرے کام کےلئے وہاں جارہا ہو، تو اُس کے لئے حج یا عمرہ میں سے کسی ایک کا احرام میقات سے باندھنا اور اس کی ادائیگی کرنا واجب ہوتا ہے۔ اور اگر اس کا حدود حرم میں جانے کا ارادہ نہ ہو، تو میقات سے بغیر احرام کے بھی گزر سکتا ہے۔
اس تفصیل کے مطابق آنے والی فیملی کا ارادہ مکہ مکرمہ یا حدود حرم میں کہیں جانے کا ہو، تو ان کو میقات سے بغیر احرام کے گزرنا جائز نہیں ہوگا اور ایسی صورت میں صرف میقات سے نیت کرلینا کافی نہیں، بلکہ نیت کے ساتھ تلبیہ یعنی لبیک وغیرہ کہنا بھی ضروری ہے۔
اور اگر حدود حرم میں کہیں جانے کا ارادہ نہیں ہے، تو اب اگر میقات سے باہر کسی جگہ جاناہے جیسے ریاض وغیرہ تو بغیر احرام جاسکتے ہیں اور پھر اگر عمرہ کرنا ہو تو اب میقات سے بغیر احرام گزرنا، جائز نہیں ہوگا لہذا میقات سے یا اس سے پہلے احرام باندھ کر عمرہ کیا جائے۔
اور اگر حل میں جانے کا ارادہ ہوجیسے جدہ وغیرہ، تو اب بغیر احرام کے وہاں جاسکتے ہیں پھر اگر عمرہ کرنا چاہیں، تو حدود حرم سے پہلے احرام باندھنا لازم ہوگا۔
ہدایہ میں ہے
و المواقیت التی لا یجوز ان یجاوزھا الانسان الا محرما۔۔۔ الآفاقی اذا انتھی الیھا علی قصد دخول مکۃ علیہ ان یحرم قصد الحج او العمرۃ او لم یقصد
یعنی: میقات وہ جگہ ہے جس کو کسی انسان کو بغیر احرام پار کرنا جائز نہیں ہے۔ آفاقی جب مکہ میں داخل ہونے کی نیت سے اس کی طرف جائے تو اس پر احرام باندھنا واجب ہے چاہے اس نے حج و عمرہ کا ارادہ کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ (الہدایہ، جلد 1، صفحہ 133، 134، دار احیاء التراث)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”میقات اُس جگہ کو کہتے ہیں کہ مکہ معظمہ کے جانے والے کو بغیر احرام وہاں سے آگے جانا، جائز نہیں، اگرچہ تجارت وغیرہ کسی اور غرض سے جاتا ہو۔۔۔ مکہ معظمہ جانے کا ارادہ نہ ہو بلکہ میقات کے اندر کسی اور جگہ مثلاً جدہ جانا چاہتا ہے تو اسے احرام کی ضرورت نہیں۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 6، صفحہ 1067، 1068، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
فتاوی عالمگیری میں ہے
و لا یصیر شارعا بمجرد النیۃ ما لم یات بالتلبیۃ او ما یقوم مقامھا
ترجمہ: اور محض نیت سے وہ محرم نہیں ہو جائے گا جب تک کہ تلبیہ یا اس کے قائم مقام کوئی چیز نہ کر لے۔ (فتاوی عالمگیری، جلد 1، صفحہ 222، دار الفکر، بیروت)
ہدایہ میں ہے
من کان داخل المیقات فوقتہ الحل
ترجمہ: جو کوئی میقات کے اندر ہو تو اس کے احرام کی جگہ حل ہے۔ (الہدایہ، جلد 1، صفحہ 134، دار احیاء التراث)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد بلال عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4137
تاریخ اجراء: 25 صفر المظفر 1447ھ / 20 اگست 2025ء