
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
رفیق المعتمرین میں یہ بات درج ہے کہ محرم ناریل کا تیل استعمال کر سکتا ہے جبکہ ناریل کے تیل میں تو خوشبو بھی ہوتی ہے، تو اس حوالے سے وضاحت فرما دیں کہ ناریل کے تیل کی اجازت کس وجہ سے ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
احرام کی حالت میں اس چیز کا لگانا ممنوع ہے جو بذاتِ خود خوشبو ہو، یا اس میں خوشبو کا معنی پایا جاتا ہو۔ ناریل کا تیل نہ تو بذاتِ خود خوشبو ہے اور نہ اس میں خوشبو کا معنیٰ پایا جاتا ہے (کہ کوئی بھی اسے بطورخوشبو استعمال نہیں کرتا، جیساکہ کدو کا تیل ہے کہ اسے بھی کوئی بطور خوشبو استعمال نہیں کرتا)۔ لہذامُحرِم (احرام باندھنے والے) کےلئے ناریل کے تیل کا استعمال جائز و درست ہے، شرعاً اس میں کوئی ممانعت و حرج نہیں ہے۔
ملک العلماء،ابوبکر کاسانی رحمۃ اللہ علیہ بدائع الصنائع میں ارشاد فرماتے ہیں:
قال اصحابنا ان الاشیاء التی تستعمل فی البدن علی ثلاثۃ انواع نوع ھو طیب محض معد للتطیب بہ کالمسک و الکافور و العنبر و غیرذلک و تجب بہ الکفارۃ علی ای وجہ استعمل حتی قالوا لوداوی عینہ بطیب تجب علیہ الکفارۃ لان العین عضو کامل استعمل فیہ الطیب فتجب الکفارۃ و نو ع لیس بطیب بنفسہ و لا فیہ معنی الطیب و لا یصیرطیبا بوجہ کالشحم فسواء اکل اوادھن او جعل فی شقاق الرجل لاتجب الکفارۃ و نوع لیس بطیب بنفسہ لکنہ اصل الطیب یستعمل علی وجہ الطیب و یستعمل علی وجہ الادام کالزیت و الشیرج فیعتبر فیہ الاستعمال فان استعمل استعمال الادھان فی البدن یعطی لہ حکم الطیب و ان استعمل فی مأکول اوشقاق رجل لایعطی لہ حکم الطیب کالشحم اہ
یعنی ہمارے اصحاب نے فرمایا: بدن پر استعمال ہونے والی اشیاء تین قسم کی ہیں: خوشبوئے محض کہ جو خوشبو حاصل کرنے کے لیے ہی تیار کی گئی، جیسے مشک، کافور، عنبر وغیرہ، اس میں کفارہ واجب ہوگا، خواہ کسی طور پر اسے استعمال کیا گیا ہو۔ حتٰی کہ فقہاء نے فرمایا کہ اگر کسی نے خوشبو سے اپنی آنکھ کا علاج کیا، تو اس پر کفارہ واجب ہوگا، کیونکہ آنکھ ایک مکمل عُضو ہے اور اس میں خوشبو کو استعمال کیا گیا ہے، لہٰذا کفارہ لازم ہوگا۔ دوسری قسم وہ جو بذاتِ خود خوشبو نہ ہو، نہ ہی اس میں خوشبو والا معنیٰ پایا جاتا ہو جیسا کہ چربی تو اس میں کھانا یا بطورِ تیل استعمال کرنا یا پیروں کی پھٹن پر لگانا سب برابر ہے اور اس میں کوئی کفارہ واجب نہیں۔ تیسری نوع وہ کہ جو بذاتِ خود تو خوشبو نہیں، لیکن خوشبو کی اصل ہے کہ بطورِ خوشبو بھی استعمال ہوتی ہے اور بطورِ سالن بھی۔ جیسے زیتون اور تل کا خالص تیل۔ اس میں اس کا استعمال معتبر ہے ( چنانچہ) اگر بطورِ تیل بدن پر استعمال ہو، تو اس کے خوشبو ہونے کا حکم دیا جائے گا اور اگر کسی کھانے والی شے یا پیروں کی پھٹن میں استعمال ہو، تو چربی کی طرح خوشبو کا حکم نہ دیا جائے گا۔ا ھ۔‘‘ (بدائع الصنائع جلد 6، صفحہ 190، مطبوعہ کوئٹہ)
جو باتیں احرام میں جائز ہیں ان کو بیان کرتےہوئے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”گھی یا چربی یا کڑوا تیل یا ناریل یا بادام کدو، کا ہو کا تیل کہ بسایا نہ ہوبالوں یا بدن میں لگانا۔‘‘ (بہارِ شریعت،حصہ 6، صفحہ 1082، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مزید معلومات کےلئے احرام میں خوشبو کے استعمال اور اس متعلق تفصیلی و تحقیقی صورتوں پر مشتمل مجلس تحقیقات شرعیہ(دعوتِ اسلامی) کا شائع کردہ رسالہ بنام ’’احرام اور خوشبودار صابن‘‘ کا مطالعہ فرمائیں، دیے گئے لنک پر کلک کرکے یہ رسالہ ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: Web-2219
تاریخ اجراء: 28 شعبان المعظم 1446ھ / 27 فروری 2025ء