
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ حاجی کے لئے عرفہ کا روزہ رکھنا کیسا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
غیرحاجی کے لیے یومِ عرفہ کا روزہ رکھنا مستحب ہے کہ احادیث میں اس دن کے روزے كے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں، لیکن عام حاجی کے لیے یوم ِعرفہ کا روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے حاجی کو اس دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، جس کی وجہ یہ ہےکہ ہوسکتا ہے روزہ رکھنے کی وجہ سے حاجی کے جسم میں کمزوری آجائے اور حج کے افعال اداکرنے میں کوئی کمی واقع ہو جائے۔ البتہ! اگر کوئی حاجی جسمانی اعتبار سے صحت مند اور طاقتور ہو اور روزے کی وجہ سے اُسے کمزوری محسوس نہ ہوتی ہواوریوم ِ عرفہ میں ادا کئے جانے والے افعال ِحج کی ادائیگی میں نقص اور کوتاہی واقع ہونے کا کوئی اندیشہ بھی نہ ہو، تو اُس کے لیے روزہ رکھنا مکروہ نہیں بلکہ اس کے حق میں بھی مستحب ہے۔ نیز اگر روزہ رکھ لیا ہو اور کوئی عذرِ شرعی بھی نہ ہو تو اس کو پورا کر لیا جائے۔ کہ بغیر عذر شرعی کے نفلی روزہ توڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ مشکاۃ میں سنن ابو داؤد کے حوالے سے حدیث پاک ہے:
"عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم: نهى عن صوم يوم عرفة بعرفة"
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے حاجی کو عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ (مشكاة المصابيح، جلد 1، صفحہ 638، حدیث 2062، المكتب الإسلامي، بیروت)
اس حدیث پاک کی شرح میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"(و عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم نهى) أي نهي تنزيه (عن صوم يوم عرفة بعرفة) أي في عرفات لئلا يضعف عن الدعاء"
ترجمہ: (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے منع فرمایا) یعنی یہ ممانعت کراہتِ تنزیہیہ ہے، (حاجی کو عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے) یعنی عرفات میں تاکہ اسے دعا مانگنے میں کمزوری نہ پیدا ہو جائے۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، جلد 4، صفحہ 1424، دار الفکر، بیروت)
بدائع الصنائع میں علامہ علاؤ الدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات:587ھ) فرماتے ہیں:
"و أما صوم يوم عرفة: ففي حق غير الحاج مستحب، لكثرة الأحاديث الواردة بالندب إلى صومه، و لأن له فضيلة على غيره من الأيام، و كذلك في حق الحاج إن كان لا يضعفه عن الوقوف، و الدعاء لما فيه من الجمع بين القربتين و إن كان يضعفه عن ذلك يكره لأن فضيلة صوم هذا اليوم مما يمكن استدراكها في غير هذه السنة و یستدرک عادۃ، فأما فضيلة الوقوف، و الدعاء فيه لا يستدرك في حق عامة الناس عادة إلا في العمر مرة واحدة، فكان إحرازها أولى"
ترجمہ: غیر حاجی کے لئے یوم عرفہ کا روزہ رکھنامستحب ہے کہ اس دن کے روزےکے مستحب ہونے پر کثیر احادیث وارد ہیں، اور اس لئے بھی کہ اس دن کو اس کے علاوہ دنوں پر فضیلت حاصل ہے، یہی حکم حاجی کے لئے بھی ہے جب کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے وقوف اور دعا کی ادائیگی میں ضعف لاحق نہ ہوتا ہو کہ اس میں دو عبادتوں کا جمع کرنا ہے، اور اگر روزہ رکھنے کے سبب ضعف لاحق ہو تو اب حاجی کو روزہ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ اس دن کے روزے کی فضیلت کو اس سال کے علاوہ بھی پایا جا سکتا ہے، لیکن جو وقوف اور دعا کی فضیلت ہے عادۃ عام لوگوں کے لئے زندگی میں ایک مرتبہ ہی ممکن ہوتی ہے، لہذا روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد 2، صفحہ 79، دار الكتب العلمية، بیروت)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:" ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے بیہقی و طبرانی روایت کرتے ہیں، کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم عرفہ کے روزہ کو ہزار دن کے برابر بتاتے۔ مگر حج کرنے والے پر جو عرفات میں ہے، اُسے عرفہ کے دن کا روزہ مکروہ ہے۔ کہ ابو داود و نسائی و ابن خزیمہ و ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے عرفہ کے دن عرفہ میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔" (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 5، صفحہ 1010، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3928
تاریخ اجراء: 20 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 17 جون 2025 ء