
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
عمرہ کرنے والے نے طواف کی دو رکعتیں نہیں پڑھیں کیونکہ مکروہ وقت تھا اور عمرہ مکمل کرلیا، اس کے دو دن بعد دو رکعتیں حرم میں پڑھیں تو عمرہ ہوگیا یا دم لازم ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
طواف کے نوافل مؤخر کرنے میں دم لازم نہیں ہوتا، اور عمرے میں بھی کوئی خلل نہیں آتا، لہذا اگر باقی افعال عمرہ صحیح طرح ادا کئے تھے تو عمرہ ادا ہوگیا، البتہ! طواف کے نوافل میں بلا عذر تاخیر کرنا خلاف سنت و مکروہ ہے، لہذا چاہیے تو یہ تھاکہ جب مکروہ وقت ختم ہوگیا تھا تو اگر کوئی عذر نہیں تھا تو جلد از جلد نوافل ادا کرلیے جاتے، یہاں تک علمائے کرام نے فرمایا کہ: اگر عصر کے بعد طواف کیا تھا تو اب مغرب کے فرض پڑھنے کے بعدپہلے طواف کے نوافل پڑھے پھر مغرب کی سنتیں پڑھے، اور اگر کسی معقول عذر کی وجہ سے اتنی تاخیرہوئی توکوئی حرج نہیں اور اگر بلاعذر اتنی تاخیرکی توخلاف سنت اور مکروہ ہوا لیکن تاخیر کے ساتھ نوافل اداکرنے سے بھی نوافل اداہوگئے۔
منحۃ الخالق میں ہے
”و لو صلاها خارج الحرم و لو بعد الرجوع إلى وطنه جاز، و يكره و السنة الموالاة بينها و بين الطواف“
ترجمہ: اگر طواف کرنے والے نے اس نماز کو حرم سے باہر، اگرچہ وطن لوٹ جانے کے بعد ادا کیا تو بھی جائز ہے، لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے، سنت یہ ہے کہ طواف اور اس نماز کو پے در پے (درمیان میں وقفہ کیے بغیر) ادا کیا جائے۔ (بحر الرائق مع منحۃ الخالق، ج 2، ص 356، دار الكتاب الإسلامي)
لباب المناسک میں ہے
”و لو ترک رکعتی الطواف لاشئی علیہ و لا تسقطان عنہ و علیہ ان یصلیھما و لو بعد سنین“
ترجمہ: اگر کسی نے طواف کی دو رکعت تر ک کردیں، تو اس پر کچھ بھی لازم نہیں اور وہ رکعتیں ذمہ سے ساقط نہ ہوں گی اور اس پر لازم ہے کہ وہ دو رکعتیں پڑھے اگرچہ کئی سالوں بعد۔ (لباب المناسک، صفحہ 218، مطبوعہ بیروت)
درمختار و رد المحتار میں ہے
”(ثم صلى شفعا) أی ركعتين (فی وقت مباح) قيد للصلاة فقط فتكره فی وقت الكراهة بخلاف الطواف، و السنة الموالاة بينهما و بين الطواف، فيكره تأخيرها عنه إلا فی وقت مكروه و لو طاف بعد العصر يصلی المغرب، ثم ركعتی الطواف، ثم سنة المغرب“
ترجمہ: پھر بعدِ طواف مباح وقت میں دو رکعت نماز پڑھے، مباح وقت کی قید صرف نماز کے متعلق ہے کہ نماز تو وقت ِ کراہت میں مکروہ ہے نہ کہ طواف اور ان دو رکعتوں اور طواف کے درمیان موالات یعنی بعدِ طواف اس نماز کو فوراً ادا کرنا سنت ہے، لہٰذا طواف کے بعد اس نماز میں تاخیر کرنا مکروہ ہے، مگر یہ کہ مکروہ وقت ہو تو تاخیر مکروہ نہیں اور اگر کسی نے عصر کے بعد طواف کیا، تو وہ پہلے نماز مغرب پڑھ لے، پھر طواف کی یہ دو رکعتیں پڑھے، پھر مغرب کی سنتیں پڑھے۔(رد المحتار علی الدر المختار، ملتقطا، ج 02، ص 499، دار الفکر، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3800
تاریخ اجراء: 08 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 06 مئی 2025 ء