
دارالافتاءاھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک بزرگ اسلامی بھائی نے ہوائی جہاز میں عمرے کی نیت کی، لیکن مکہ مکرمہ پہنچ کر تھکن کی وجہ سے مسجدِ حرام نہ جا سکے اور عمرہ ادا نہیں کیا۔پھر انہوں نے عام کپڑے پہن کر پہلا احرام ختم کر دیا، پھر اگلے دن مسجدِ عائشہ سے نیا احرام باندھ کر عمرہ ادا کیا۔سوال یہ ہے کہ کیا اُن کا ایسا کرنا درست تھا یا نہیں؟ اور پہلے والا احرام نارمل کپڑے پہن کے کھول دیا ، اس پر کوئی دم لازم ہوگا اور کیا عمرے کی قضا بھی کرنی ہوگی؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں یہ طریقہ شرعاً درست نہیں تھا،البتہ جو عمرہ ادا کیا،وہ ادا ہوگیا،اور اب ان پر ایک عمرے کی قضا لازم ہے۔باقی دم کے حوالے سے حکم مندرجہ ذیل تفصیل کی روشنی سے واضح ہوجائے گا۔ تفصیل یہ ہے کہ صورت مسئولہ میں جب بزرگ اسلامی بھائی نے پہلے عمرے کے احرام کی نیت میقات سے کی تو وہ مُحرم ہوگئے،پھر چونکہ احرام کی نیت کے بعد سلے کپڑے پہن کر احرام ختم کرلینے سے احرام ختم نہیں ہوتا،لہٰذا وہ بزرگ اسلامی بھائی سلے کپڑے پہننے کے باوجود بدستور احرام کی حالت ہی میں رہے اور جب وہ احرام کی حالت ہی میں تھے ،تو اب جو انہوں نے اگلے دن مسجد عائشہ جاکرنئے احرام کی نیت کی،تو یہ عمرے کے دو احراموں کو ایک ساتھ جمع کرنا ہوا جو کہ شرعاً جائز نہیں تھا ،جس کی وجہ سے وہ گنہگار بھی ہوئے اور ان پر دونوں عمروں کی ادائیگی بھی لازم ہوگئی تھی، پھر چونکہ حکم شرعی یہ ہے کہ جب عمرے کے دو احراموں کو جمع کرلیا جائے، تو دونوں میں سےایک عمرے کی نیت توڑنا لازم ہوتا ہے،اور اُس نیت کے توڑنے کےسبب ایک دم بھی لازم ہوتاہے۔اگر کوئی ایک عمرے کی نیت ختم نہ کرے اور عمرہ شروع کردے، تو دو عمروں میں سے ایک عمرے کا احرام خود بخود ہی ختم ہوجاتاہے،لہذا مذکورہ صورت میں اُن پردونوں عمروں میں سے ایک عمرے کی نیت ختم کرنا لازم ہوگیا تھا،مگر جب اُنہوں نے دو عمروں میں سے ایک عمرے کی نیت ختم کیے بغیر ہی عمرے کا طواف شروع کردیا، تو اُن دو عمروں میں سے ایک عمرے کا احرام خود بخود ہی ختم ہوگیا،اوراُس عمرے کے رِفض( ترک ) کی وجہ سے ان پرایک دم لازم ہوا،اور اس ختم ہونے والے عمرے کی قضا بھی لازم ہوگئی۔
باقی احرام کی حالت میں سلےکپڑے پہننے سے دم لازم ہونے نہ ہونے میں تفصیل ہے، وہ یہ کہ اگرسلے کپڑے پورے چار پہر یعنی مسلسل بارہ ( 12) گھنٹے تک پہنے رکھے ،تو رفض عمرہ کےدم کے علاوہ ایک دم اس کا بھی لازم ہوگا ، لیکن اگربارہ( 12) گھنٹے سے پہلے پہلےسلےکپڑے اُتار کر احرام کی چادریں پہن لیں،تو سلےکپڑوں کے پہننے سے کوئی دم لازم نہیں ہوگا،البتہ اس کے سبب صدقہ فطر یا اس کی قیمت کی ادائیگی بطور کفارہ لازم ہوگی۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اگر سلے کپڑے تو چار پہر تک نہ پہنے ہوں،مگر دوسری کوئی جنایت ایسی کی ہو جس پر دم لازم ہوتا ہو، تو پھر اس جنایت کے سبب بہرحال ایک اور دم لازم ہوگا۔مزید یہ کہ اگر چند ایسے ممنوعاتِ احرام کاموں کا ارتکاب کیا ہو جس کے بدلے دم یا صدقہ لازم ہوتا ہو،تو اس صورت میں اگراپنی لاعلمی کی بناء پر احرام کا ختم ہونا سمجھےجس کی بنا پرممنوعات احرام کاموں کا ارتکاب کیا،تو سب جنایات پر الگ الگ دم یا صدقہ لازم نہیں ہوگا ، بلکہ اُن سب کے بدلےصرف ایک ہی دم یا صدقہ لازم ہوگا،ہاں اگر معلوم تھا کہ اس طرح محض احرام سے باہر ہونے کی نیت کرلینے ،یا سلےکپڑے پہن لینے سے احرام سے باہر نہیں ہوں گے ،پھر اس کے باوجود جنایات کا ارتکاب کیا،تو ہر جنایت پر حسبِ تفصیل الگ الگ دم یا صدقہ لازم ہوگا۔
احرام توڑنے کی نیت کرنے اور ممنوعات احرام کاموں کا ارتکاب کرنےسے احرام ختم نہیں ہوتا،جیسا کہ مبسوط سرخسی میں ہے:
’’وكذلك بنية الرفض وارتكاب المحظورات فهو محرم على حاله‘‘
ترجمہ:محرم احرام توڑنے کی نیت اور ممنوعات کے ارتکاب کے سبب بھی حالت احرام ہی میں رہے گا۔ (مبسوط سرخسی،جلد4،صفحہ122،دار المعرفۃ، بيروت)
احرام ختم ہوجانے کے گمان سے اگر چند ممنوعاتِ احرام کام کیے ہوں ،تو سب کے بدلے ایک ہی دم لازم ہوگا،جیسا کہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:
’’نية الرفض باطلة لأنه لا يخرج عنه إلا بالأعمال، لكن لما كانت المحظورات مستندة إلى قصد واحد وهو تعجيل الإحلال كانت متحدة فكفاه دم واحد۔بحر۔ قال في اللباب اعلم أن المحرم إذا نوى رفض الإحرام فجعل يصنع ما يصنعه الحلال من لبس الثياب والتطيب والحلق والجماع، وقتل الصيد فإنه لا يخرج بذلك من الإحرام، وعليه أن يعود كما كان محرما ويجب دم واحد لجميع ما ارتكب، ولو كل المحظورات وإنما يتعدد الجزاء بتعدد الجنايات إذا لم ينو الرفض، ثم نية الرفض إنما تعتبر ممن زعم أنه خرج منه بهذا القصد لجهله مسألة عدم الخروج، وأما من علم أنه لا يخرج منه بهذا القصد فإنها لا تعتبر منه‘‘
ترجمہ:احرام کو ختم کرنے کی نیت باطل ہے، کیونکہ بغیر افعال کے احرام سے نہیں نکلا جاسکتا،لیکن جب ممنوعات ایک قصد ہی کی طرف منسوب ہوں اور وہ جلد احرام سے نکلنا ہے، تو تمام جنایات ایک ہی سمجھی جائیں گی اور اسے ایک دم کافی ہوگا۔لباب میں فرمایا: جان لے کہ محرم جب احرام سے نکلنے کی نیت کرلے اور وہ کام شروع کر دے جو غیر ِمحرم کرتا ہے ،جیسے سلے ہوئے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، حلق کروانا، جماع کرنا اور شکار کو قتل کرنا، تو وہ اس نیت سے احرام سے باہر نہیں آئے گا اور اُس پر لازم ہوگا کہ جیسے پہلے محرم تھا، اسی حالت پرواپس لوٹ آئے اور اُس پر تمام ممنوع اُمور کے ارتکاب کے عوض ایک ہی دم لازم ہو گا، اگر چہ اُس نے سارے ہی ممنوعات احرام کا ارتکاب کیا ہو اور متعد دجنایات سے متعدد کفارے اُس وقت لازم ہوتے ہیں جب احرام سے نکلنے کی نیت نہ کی ہو۔ پھر احرام سے نکلنے کی نیت اُسی کی معتبر ہے جو یہ گمان کرتا ہو کہ وہ اس قصد کے ذریعے احرام سے نکل جائے گا۔اور جو جانتا ہو کہ اس طرح صرف نیت سے وہ احرام سے نہیں نکلے گا، تو اب اس کی یہ نیت معتبر نہیں ہوگی( اور متعدد جنایات سے متعدد کفارے لازم ہوں گے) ۔(رد المحتار علی الدر المختار،جلد3،باب الجنایات،صفحہ665،دارالمعرفۃ،بیروت)
احرام کے رفض کی نیت اس شخص کی معتبر ہوگی جو اپنی لاعلمی کی بنا پر یہ سمجھے کہ وہ نیت کرنے سے احرام سے باہرہوجائے گا،ورنہ اگر وہ جانتا ہو کہ وہ اس طرح احرام سے باہر نہیں ہوگا، تو رفض کی نیت معتبر نہیں ہوگی اور ہر جنایت پر الگ الگ کفارہ لازم ہوگا،چنانچہ لباب المناسک مع شرحہ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط میں ہے:
’’(اعلم أن المحرم إذا نوى رفض الإحرام )أی قصد ترک الاحرام بماشرۃ المحظور علی وفق ظنہ (فجعل يصنع ما يصنعه الحلال من لبس الثياب والتطيب والحلق والجماع وقتل الصيد فإنه لا يخرج بذلك من الإحرام، وعليه أن يعود كما كان محرما، ويجب دم واحد لجميع ما ارتكب ولو كل المحظورات، وإنما يتعدد الجزاء بتعدد الجنايات إذا لم ينو الرفض)أی فی اول ارتکابھا واستمر علیھا (ثم نية الرفض إنما تعتبر ممن زعم أنه خرج منه بهذا القصد لجهله مسألة عدم الخروج، وأما من علم أنه لا يخرج منه بهذا القصد فإنها لا تعتبر منه)‘‘
ترجمہ:جان لو کہ اگر محرم احرام چھوڑنے کی نیت کر لے یعنی وہ اپنے گمان کے مطابق کسی ممنوع عمل کے ارتکاب سے احرام کے ترک کا ارادہ کرے اور وہ غیر محرم جیسے کام کرنے لگے جیسے سلےہوئے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، بال منڈوانا، جماع کرنا، شکار کرنا، تو ان سب کے باوجود وہ احرام سے باہر نہیں ہوگااور اس پر واجب ہے کہ اسی حالت احرام میں واپس آجائے جیسا وہ پہلے تھا۔ اور ان تمام ممنوعات کے ارتکاب پر اس پر ایک دم لازم آئے گا، چاہے اس نے تمام محظورات کا ارتکاب کیا ہو۔ اورجنایات کے متعدد ہونے سے کفاروں کا متعدد ہونا اس صورت میں ہے کہ جب وہ اس جنایت کے ارتکاب کے شروع میں رفض کی نیت نہ کرے اور اسی پر برقرا ر رہے۔ پھر (یہ بات بھی جان لو کہ) احرام چھوڑنے کی نیت اس وقت معتبر سمجھی جاتی ہے جب یہ کسی ایسے شخص کی طرف سے ہو جو یہ سمجھتا ہو کہ اس نیت سے وہ احرام سے باہر نکل گیا ہے، کیونکہ وہ اس مسئلے سے ناواقف ہے کہ صرف نیت سے احرام ختم نہیں ہوتا۔بہرحال جس کومعلوم ہوکہ اس نیت سے وہ احرام سے باہر نہیں ہوگا ، تو اس کی نیت معتبر نہیں سمجھی جائے گی۔
(لباب المناسک مع شرحہ،صفحہ450،دار الکتب العلمیہ،بیروت)
جس پر رِفض( ترک ) لازم ہو اس پر رِفض( ترک ) کی نیت کرنا بھی لازم ہے،ہاں اگر سعی سے پہلے دو عمروں کو جمع کرلیا ،تو ان میں سے ایک کے اعمال شروع کرتے ہی دونوں میں سے ایک کا احرام خود بخود ختم ہوجائے گا،جیسا کہ لباب المناسک میں ہے:
’’کل من لزمہ رِفض العمرۃ فعلیہ دم و قضاء عمرۃ۔۔۔وکل من علیہ الرِفض یحتاج الی نیۃ الرِفض الا من جمع بین العمرتین قبل السعی للاولی ۔۔۔ ترتفض احداھما من غیر نیۃ رِفض لکن اما بالسیر الی مکۃ أو الشروع فی اعمال احداھما‘‘
ترجمہ:ہر وہ شخص جس پر عمرہ کا رِفض (ترک ) (توڑنا) لازم ہو، تو اس پر ایک دم اور عمرہ کی قضا لازم ہوگی۔۔۔اور ہر وہ شخص جس پر رِفض( ترک ) لازم ہو ،تو اس پر رِفض (ترک ) کی نیت کرنا ضروری ہے مگر یہ کہ جس نے دو عمروں کو پہلے عمرے کی سعی سے پہلے جمع کیا تو رِفض( ترک ) کی نیت کے بغیر ہی ان میں سے ایک عمرے کے احرام کا رِفض( ترک ) خود بخود ہوجائے گا ،لیکن یہ رِفض( ترک ) یا تو مکہ کی طرف چلنے سے ہوگا یا ان میں سے ایک کے اعمال میں شروع ہونےسے ہوگا۔ (لباب المناسک مع شرحہ، باب اضافۃ احد النسکین، صفحہ328،دار الکتب العلمیہ،بیروت)
بحر الرائق میں ہے:
’’وإن كانا معا أو على التعاقب فالحكم كما تقدم في الحجتين من لزومهما عندهما خلافا لمحمد من ارتفاع أحدهما بالشروع في عمل الأخرى عند الإمام خلافا لأبي يوسف ووجوب القضاء ودم للرِفض‘‘
ترجمہ:اور اگر دو عمروں کا احرام ایک ساتھ ہو یا ایک کے بعد دوسرے کا ہو، تو اس کا حکم وہی ہے جو دو حج کو جمع کرنے کا بیان ہوا یعنی یہ دونوں عمرے شیخین کے نزدیک لازم ہوجائیں گے،برخلاف امام محمد کے اور دوسرے کے افعال کو شروع کرنے سے ان میں سے ایک کا ارتفاع ہوجائے گا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک برخلاف امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے اور اس چھوٹنے والے عمرہ کی قضا واجب ہوگی اور رِفض( ترک ) عمرہ کا ایک دم لازم ہوگا۔ (البحر الرائق،جلد3،باب اضافۃ الاحرام الی الاحرام،صفحہ56، دار الكتاب الإسلامي)
رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:
’’لو جمع بين عمرتين قبل السعي للأولى ترتفض إحداهما بالشروع من غير نية رِفض ‘‘
ترجمہ:اگر کسی نے پہلےعمرہ کی سعی کرنے سے پہلے ہی دو عمروں کو جمع کرلیا تو عمرہ کو شروع کرتے ہی ،ان میں سے ایک عمرہ توڑنے کی نیت کے بغیر خود بخودختم ہوجائے گا۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد3، صفحہ716، دار المعرفۃ،بیروت)
فتاوی حج و عمرہ میں ایک سوال ہوا کہ ایک عورت عمرہ کرنے کے لیے گئی اور اسے مکہ میں داخل ہونے کے بعد عمرہ شروع کرنے سے پہلے حیض آگیا جس کی بناء پر وہ عمرہ کیے بغیر مدینہ منورہ چلی گئی،کیونکہ اس کے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ وہ پاک ہوجانے کے بعد عمرہ کرتی، تواب اس پر کیا حکم عائد ہے؟
جواب میں فرمایا :’’صورت مسئولہ میں وہ خاتون احرام ہی میں رہےگی پھر جب وہ پاک ہوجائے گی تو وہاں سے مکہ مکرمہ آئے اور عمرہ کرے اور اسے چاہئے کہ مکہ مکرمہ آتے ہوئے میقات سے نئے احرام کی نیت نہ کرے کیونکہ وہ بدستور احرام ہی میں ہے،ورنہ ایک عمرہ کے ہوتے ہوئے دوسرے عمرے کی نیت ہوجائے گی اور یوں دو احراموں کو جمع کرنے اور ان میں سے ایک کے چھوڑنے کی وجہ سے دم (لازم ہوگا)اور ایک عمرے کی قضا اور توبہ کرنا ہوگی کیونکہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔‘‘(فتاوی حج و عمرہ،حصہ12،جمعیت اشاعت اھلسنت ،پاکستان)
جب کوئی شخص دو احراموں میں سے ایک احرام کا رِفض( ترک ) کرلے یا اس کا خود بخود رِفض( ترک ) ہوجائے تو اس کے سبب رِفض(ترک ) کا دم لازم ہوتا ہے اور دو احراموں کو جمع کرنےوالا دم لازم نہیں ہوتا۔لہذا پوچھی گئی صورت میں بھی جب ایک عمرے کے احرام کا ترک ہوگیا، تو اس کے سبب صرف رِفض( ترک ) احرام کاایک دم لازم ہوگا،عمرے کے دو احراموں کو جمع کرنے کا مزید کوئی دم ہرگز لازم نہیں ہوگا۔
چنانچہ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط میں ہے:
’’ثم اعلم ان من جمع بین الحجتین أو العمرتین أو حجۃ و عمرۃ ولزمہ رِفض احداھما فرِفضھا،فعلیہ دم للرِفض ،وھل یلزمہ دم آخر للجمع أم لا؟فالمذکور فی عامۃ الکتب ان دم الجمع انما یلزمہ فیما اذا لم یرِفض احداھما،أما اذا رفضھا فلم یذکر فیھا الا دم الرِفض ،بل المفھوم منھا تصریحا وتلویحا عدم لزوم دم الجمع ‘‘
ترجمہ:پھر جان لو کہ جو شخص دو حج یا دو عمروں یا حج اور عمرے کو جمع کرلے اور اس پر ان میں سے ایک کا احرام ختم کرنا لازم ہوا ،تو اس نے ایک احرام ختم کردیا، تو اس پر رِفض( ترک ) کا دم لازم ہوگا،مگر کیا اس پر ایک دم جمع کا بھی لازم ہوگا یا نہیں؟تو عامہ کتب میں جو مذکور ہے وہ یہ ہے کہ جمع کا دم اس صورت میں لازم ہوگا کہ جب وہ ان دو احراموں میں سے ایک کو ختم نہ کرے،بہرحال جب وہ ایک احرام کو ختم کردے تو اس صورت میں صرف رِفض( ترک ) کے دم کے لازم ہونے کو ہی ذکر کیا گیا ہے ،بلکہ اس سے صراحۃ اور اشارۃ یہی سمجھا گیا ہے کہ اس صورت میں جمع کا دم لازم نہیں ہوگا۔ (المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط ،صفحہ420،مطبوعہ مکۃ المکرمۃ)
محرم اگر سلا ہواکپڑا مسلسل چار پہر( یعنی بارہ گھنٹے) تک پہنے رکھے تو اس پر دم لازم آتا ہے اور اگر چار پہر سے کم پہنے تو صدقہ لازم ہوتا ہے،چنانچہ لباب المناسک اور اس کی شرح المسلک المتقسط میں ہے:
’’(اذا لبس مخیطاً)أی علی الوجہ المعتاد(یوما کاملا أو لیلۃ کاملۃ فعلیہ دم)أی اتفاقا،والظاھر ان المراد مقدار احدھما،فیفید ان من لبس من نصف النھار الی نصف اللیل من غیر انفصال،وکذا فی عکسہ لزمہ دم(وفی اقل من یوم أو لیلۃ صدقۃ)‘‘
ترجمہ:جب محرم عام طریقے کے مطابق سلا ہوا کپڑا ایک مکمل دن یا ایک مکمل رات تک پہنے، تو اس پر دم لازم ہےیعنی بالاتفاق۔ اور ظاہر یہ ہے کہ مراد دن یا رات میں سے ایک کی مقدار ہے۔تو یہ اس بات کا فائد دیتا ہے کہ اگر کسی نے آدھے دن سے آدھی رات تک بغیر وقفے کے،اور اسی طرح اس کے برعکس (یعنی آدھی رات سے آدھے دن تک بغیر وقفے کےسلا ہوا کپڑا پہنا) تو دم لازم آئے گا(کیونکہ اس نے دن یا رات کی مقدار پوری کر لی)۔ اور اگر ایک دن یا رات سے کم وقت کے لیے سلا ہوا کپڑا پہنا ہو، تو صدقہ دینا ہوگا۔ (لباب المناسک مع شرحہ،صفحہ333،332،دار الکتب العلمیہ،بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-710
تاریخ اجراء: 17 شوال المکرم1446ھ/16 اپریل 2025ء