
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے میرے پاس امانت کے طور پر سونا رکھوایا تھا، جسے میں نے ضرورت پڑنے پر بلا اجازت بیچ دیا، اب اس شخص کی طرف سے واپسی کا مطالبہ ہے، تو میں اُسے اس جیسا سونا ہی واپس کروں یا وہ مجھ سے قیمت کا مطالبہ بھی کرسکتا ہے؟ اور اگر قیمت کا مطالبہ کرے، تو کس دن کی قیمت کا اعتبار ہوگا، جس دن سونا فروخت کیا تھا اس دن کی یا پھر ادائیگی کے وقت کی؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں بلا اجازت امانت والا سونا بیچنے کے سبب آپ گنہگار ہوئے، جس سے توبہ آپ پر بہر حال لازم ہے۔ رہا یہ کہ اصولی طور پر سونے کے بدلے اس جیسا سونا دینا ہی لازم ہے یا پھر آپ سے قیمت بھی لی جاسکتی ہے، تو اس کی دو صورتیں ہیں:
(1)مذکورہ سونا اگر مثلی تھا :
سونا مثلی (مثلی سے مرادجس سے ملتی جلتی چیز بازار میں دستیاب ہوتی ہے، اور ان کی قیمتوں میں باہم بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا)بھی ہوتا ہے اور قیمی (قیمی سےمرادجس سے ملتی جلتی چیز بازار میں موجود نہ ہو، یا موجودہو، تو ان کی قیمتوں میں باہم بہت زیادہ فرق ہو)بھی۔جو سونا صنعت و بناوٹ سے خالی ہو، بسکٹ، ڈلی یا خام حالت میں موجود ہو، ایسا سونا مثلی ہوا کرتا ہے۔ ایسے سونے کے بدلے اس جیسا سونا دینا ہی لازم ہوگا، اس صورت میں مالک آپ سےآپ کی مرضی کے بغیر قیمت وصول نہیں کرسکتا، ہاں اگر آپ دونوں باہمی رضامندی سے قیمت کے ذریعے ادائیگی پر متفق ہوجائیں، تو اب جتنی بھی قیمت پر اتفاق ہو، اس کی ادائیگی بھی شرعا جائز ہوجائے گی۔
(2)اگرسونا قیمی تھا:
سونا صنعت یا دست کاری کی وجہ سے زیور وغیرہ کی صورت میں ڈھل جائے، تو عموما ً وہ قیمی ہو جاتا ہے، ایسے سونے کےتاوان میں اصولی طور پر قیمت کا مطالبہ ہی کیا جاسکتا ہے، اور قیمت غصب والے دن کی معتبر ہوگی جوکہ پوچھی گئی صورت میں سونا بیچنے والے دن کی بنتی ہے، لہذا اسی کا اعتبار کیا جائے گا، البتہ اگر آپ دونوں باہمی رضامندی سے قیمت میں کمی یا زیادتی پر مصالحت کر لیں، تو جتنی قیمت پر اتفاق ہو، اس کی ادائیگی بھی کافی ہوگی۔
مالِ امانت کو بلا اجازت فروخت کرنا غصب کے حکم میں ہے، جس کی وجہ سےتاوان لازم ہوگا۔مبسوط سرخسی میں ہے:
”وإن باع الغاصب الولد وسلمه أو أتلفه فهو ضامن لقيمته لوجود التعدي منه كما لو باع المودع الوديعة“
اگر غاصب نے بچے کو بیچ کر سپرد کردیا یا تلف کردیا، تو تعدی کی وجہ سے قیمت کا ضامن ہوگا، جیسا کہ مودع( یعنی جس شخص کے پاس امانت رکھوائی جائے) کے مال ودیعت بیچ دینے کی صورت میں ہوتا ہے۔ (مسبوط سرخسی، ج11، ص55، مطبعة السعادة، مصر)
اور گناہ الگ ہے۔ مال امانت خرچ کردیا، تو اس کے حکم کے حوالے سےفتاوی رضویہ میں ہے: ”بیشک تاوان دے گا اور ہر گز رضائے پسر نہ تھی، تو گناہ علاوہ۔“ (فتاوی رضویہ، ج19، ص643، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مثلی اور قیمی اشیاء کی تعریف کے حوالے سے مجلس افتاء کی طرف سے جاری کردہ ”مثلی اور قیمی اشیاء کی پہچان اور شرعی احکام“ نامی کتاب میں ہے: ”مثلی سے مراد وہ اشیاء ہیں کہ جن کی مثل بازار سے مل سکے اور ان کی قیمت میں معتد بہا فرق نہ ہو(یعنی بہت زیادہ فرق نہ ہو بلکہ اگر فرق ہے تو معمولی سا)۔۔۔قیمی اشیاء سے مراد وہ اشیاءہیں جو مثلی کے برخلاف ہوں یعنی ان کی مثل بازار میں موجود نہ ہویا اس چیزکے مختلف افراد کے درمیان معتد بہا فرق ہو یعنی معمولی نہیں، بلکہ بہت زیادہ فرق ہو)۔“ ( مثلی اور قیمی اشیاء کی پہچان اور شرعی احکام، ص18، 19، مجلس افتاء)
سونا چاندی مثلی ہیں، لیکن زیور کی صورت میں ڈھل جائیں، تو قیمی ہوجاتے ہیں، اس حوالے سےدرر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
”ان المصنوعات المثلية نوعان۔۔۔النوع الثانی: المصنوعات التی تختلف باختلاف الصنعة كاباريق النحاس والقدور والاسورة ومع ان الفضة هی من المثليات فكون الاسورة المعمولة منها قيمية هو بسبب الصنعة، لان الصانع يصنع الاسورة بصور مختلفة ولذلك فالاسورة المصنوعة من عشرين درهما فضة او ذهبا ليست مثلا للاسورة الاخرى المعمولة عن عشرين درهما فضة او ذهبا‘‘
تیار کردہ مثلی اشیاء دو طرح کی ہوتی ہیں۔۔۔دوسری قسم: تیارکردہ وہ اشیاء جو صنعت کے مختلف ہونے کے سبب مختلف ہوتی ہیں، جیسے تانبے کے جگ اور ہنڈیا اور کنگن۔ اور چاندی کے مثلی ہونے کے باوجود چاندی کے بنائے ہوئے کنگنوں کا قیمی ہونا صنعت کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے، کیونکہ کنگن بنانے والا مختلف طرح کے کنگن بناتا ہے، اسی وجہ سے بیس درہم چاندی یا سونے سے بنائے ہوئے کنگن دوسرے بیس درہم چاندی یا سونے کے بنائے ہوئے کنگنوں کی مثل نہیں ہوتے۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام، ج3، ص106، دار الجیل)
شرح المجلۃ کے ہی ایک دوسرے مقام میں یوں مذکور ہے:
”لا نه بعلاوة صنعة يخرج عن ان يكون مثليا ويصبح قيميا، كخروج الذهب والفضة عن المثليات بحصول الصنعة فيهما“
کیونکہ وہ کاریگری کی وجہ سےمثلی ہونے سے نکل کر قیمی ہو جائے گی، جیسا کہ سونا اور چاندی صنعت کی وجہ سےمثلی ہونے سے نکل جاتے ہیں۔ ( درر الحکام شر ح مجلۃ الاحکام، ج03، ص107، دار الجیل)
مثلی اور قیمی اشیاء کے تاوان میں اصولی طور پر کس چیز کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے، اس حوالے سے ”مثلی اور قیمی اشیاء کی پہچان اور شرعی احکام“ نامی کتاب میں ہے: ”کسی کی چیز غصب کی (یعنی چھین لی) یا چوری کر لی اور اگر کسی وجہ سے اس چیز کو واپس کرنا، ممکن نہ رہے، مثلاً: وہ چیز ضائع ہو گئی یا کھانے والی تھی اسے کھا لیا یا اس جیسی کوئی اور صورت پائی گئی، تو اب اس کا بدل ادا کیا جائے گا۔ یعنی اگر وہ چیز مثلی ہے، تو اس طرح کی چیز لا کر مالک کو ادا کر دی جائے اور اگر وہ مثلی نہیں بلکہ قیمی ہے، تو اس چیز کی جو قیمت بنتی ہے، وہ مالک کو ادا کی جائے۔ لہذا مالک، مثلی چیز کے تاوان میں قیمت اور قیمی چیز کے تاوان میں اس کی مثل کا تقاضا نہیں کر سکتا۔“ ( ملتقطا من مثلی اور قیمی اشیاء کی پہچان اور شرعی احکام، ص74، مجلس افتاء)
قیمی چیز کے تاوان میں غصب والے دن کی قیمت کا اعتبار کیا جاتا ہے اورہماری صورت میں وہ بیع والا دن ہی ہے، لہذا اسی دن کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا، اس حوالے سےبدائع الصنائع میں ہے:
”تعتبر قيمة المغصوب يوم الغصب“
مغصوبہ چیز کی قیمت کا اعتبار غصب والے دن کے لحاظ سے کیا جائےگا۔ (بدائع الصنائع، ج07، ص151، مطبعة الجمالية بمصر)
”مثلی اور قیمی اشیاء کی پہچان اور شرعی احکام“ نامی کتاب میں ہے ”اگر قیمی چیز غصب کی ( چھینی ) اور ضائع کر دی، تو جس دن چیز غصب کی تھی اس دن کی قیمت بطور تاوان مالک کو دینی ہو گی۔“ ( مثلی اور قیمی اشیاء کی پہچان اور شرعی احکام، ص74، مجلس افتاء )
مصالحت کی صورتیں ذکر کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”مال مغصوب ہلاک ہو گیا مالک نے غاصب سے مصالحت کی، اس کی چند صورتیں ہیں: اگر مغصوب مثلی ہے اور جس چیز پر مصالحت ہوئی وہ اُسی جنس کی ہے، تو زیادہ پر صلح جائز نہیں اور اگر دوسری جنس کی چیز پر صلح ہوئی، تو جائز ہے اور اگر وہ چیز قیمی ہے اور جتنی قیمت اُس کی ہے، اُس سے زیادہ پر صلح ہوئی، یہ بھی جائز ہے، یعنی کم و برابر پر تو جائز ہی ہے، زیادہ پر بھی جائز ہے اور اگر کسی متاع پر صلح ہو، یہ بھی جائز ہے، مثلاً: ایک غلام غصب کیا، جس کی قیمت ایک ہزار تھی اور ہلاک ہو گیا، دو ہزار روپے پر مصالحت کی یا کپڑے کے تھان پر صلح ہوئی، جائز ہے اور اگر غاصب نے خود ہلاک کیا ہے، جب بھی یہی حکم ہے۔‘‘ (بھار شریعت، ج02، ص1140، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0589
تاریخ اجراء: 19 ذوالحجه1446ھ/16 جون2025ء