
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے كے بارے میں کہ متعدد چیزوں کے بارے میں مشہور ہے کہ انہیں عصر کے بعد نہیں کرنا چاہئے، جیسا کہ عصر کے بعد لکھنا پڑھنا نہیں چاہئے، اس حوالے سے تو دار الافتاء اہلسنت کا فتوی وائرل ہے، جس میں اس کا تفصیلی حکم مذکور ہے، البتہ مزید کچھ چیزیں ہیں جن کے بارے میں یہی سننے کو ملتا ہے (۱) جیسا کہ ہمارے بزرگ حضرات کہتے ہیں نماز عصر سے اذان مغرب تک کچھ كهانا پینا نہیں چاہئے۔ (۲) اسی طرح نماز عصر کے بعد سونے سے بھی منع کیا جاتا ہے، ان دونوں باتوں کی شریعت میں کوئی اصل ہے؟ برائے کرم رہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
(۱) نماز عصر کے بعد سے اذان مغرب تک کھانا پینا بلا کراہت جائز ہے، حدیث و فقہ میں اس سے ممانعت کی کوئی اصل نہیں، ہاں بعض بزرگوں کا معمول رہا ہے کہ وہ عصر کے بعد کھایا پیا نہیں کرتے تھے، اگر کوئی اس پر عمل کرتے ہوئے کھانے پینے سے رُکتا ہے تو کوئی حرج نہیں کہ انسان جتنی دیر شہوات نفسانی سے بچے بہتر ہے۔
(۲) نما ز عصر کے بعد بلا عذر سونے سے بچنا چاہئے کہ یہ ناپسندیدہ عمل ہے، حدیث پاک میں آیا ہے کہ اس سے عقل کے چلے جانے کا اندیشہ ہے، البتہ یہ ممانعت ناجائز و گناہ کی حد تک نہیں۔
عصر کے بعد کھانے پینے کی ممانعت کے حوالے سےفتاوی رضویہ میں سوال ہوا کہ: ”بعض لوگ اس ملک میں بعد نماز عصر کے اذان مغرب تک کچھ کھاتے پیتے نہیں ہیں، اور اس کو عصر کا روزہ کہتے ہیں اس کے فوائد بہت بیان کئے جاتے ہیں، کسی معتبر کتاب میں اس کی کچھ اصل ہے یانہیں؟“ اس کے جواب میں سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا: ”حدیث و فقہ میں اس کی اصل نہیں معمولات بعض مشائخ سے ہے اور اس پرعمل میں حرج نہیں انسان جتنی دیر شہوات نفسی سے بچے بہتر ہے،و اللہ تعالیٰ اعلم۔“ (فتاوی رضویہ ملتقطاً، ج 23، ص 107، رضا فاؤنڈیشن لاھور)
عصر کے بعد سونے کے حوالے سےمسند ابو یعلی میں حضر ت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
من نام بعد العصر فاختلس عقله فلا يلومن إلا نفسه
جو شخص عصر کے بعد سوئےاور اس کی عقل جاتی رہے تو وہ خود کو ہی ملامت کرے۔ (مسند ابو یعلی، ج 08، ص 316، رقم 4918، دار المأمون للتراث، دمشق)
مذکورہ حدیث کے تحت حافظ عراقی اور علامہ سیوطی علیہما الرحمہ بالفاظ متقاربہ لکھتے ہیں:
و لحديث عائشة طريق آخر أخرجه أبو نعيم و ابن السني في كتابيهما في الطب النبوي، و جاء أيضا من حديث أنس أخرجه الإسماعيلي في معجمه من طريق ابن لهيعة فالحديث ضعيف لا موضوع
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مذکورہ بالا روایت کی دوسری سند بھی ہے جسے ابو نعیم اورابن سنی نے اپنی کتابوں کے باب ”طب نبوی“ میں بیان کیا، نیز یہ روایت حضرت انس سے بھی مروی ہے جسے اسماعیلی نے اپنی معجم میں ابن لہیعہ کی سند سے بیان کیا، لہٰذا زیادہ سے زیادہ حدیث ضعیف ہے، موضوع نہیں۔(تنزیہ الشریعہ، ج 02، ص 290، دار الکتب العلمیۃ بیروت) (اللآلئ المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعۃ، 02، ص 237،دار الکتب العلمیۃ بیروت)
الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:
و يكره النوم بعد العصر لحديث: من نام بعد العصر، فاختل عقله، فلا يلومن إلا نفسه
مذکورہ حدیث کی بنا پر عصر کے بعد سونا مکروہ ہے۔ (الفقہ الاسلامی و ادلتہ، ج 01، ص 470، دار الفکر دمشق)
علامہ عبد المصطفی اعظمی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ” دن کے ابتدائی حصہ اور مغرب و عشاء کے درمیان اور عصر کے بعد سونا مکروہ ہے۔“ (جنتی زیور، ص 402، مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: HAB-0413
تاریخ اجراء: 20 صفر المظفر 1446ھ / 26 اگست 2024ء