کیا عورت نومولود بچے کو گھٹی دے سکتی ہے؟

عورت کا بچے کو گھٹی دینا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا عورت نومولود بچے کو گھٹی دے سکتی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

نیک اورمتبرک لوگوں سے گھٹی دلانی چاہیے خواہ وہ عورت ہی ہو۔

بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کافرمان ہے:

غدوت إلى رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم بعبد اللہ بن أبي طلحة ليحنكه

ترجمہ: میں صبح کے وقت اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کی بارگاہ میں عبداللہ بن ابی طلحہ کو لے کر حاضر ہوا تاکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم ان کوگھٹی دیں۔ (صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، حدیث نمبر: 1502، ج 02، ص 130،دار طوق النجاۃ)

اس کے تحت علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمۃ اس سے حاصل ہونے والے فوائدشمار کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

و فيه: قصد أهل الفضل و الصلاح لتحنيك المولود لأجل البركة.

ترجمہ: اور اس حدیث پاک میں برکت کے لیے صاحب فضیلت اور نیک شخصیت کے پاس بچے کو گھٹی دلانے کے لیے لے کر جانے کا ذکر ہے۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج 09، ص 107،دار احیاء التراث العربی، بیروت)

امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:

یستحب ان یکون المحنک من الصالحین و ممن یتبرک بہ رجلا کان او امراۃ

ترجمہ: مستحب ہے کہ گھٹی دینے والا نیک اورمتبرک لوگوں میں سے ہو ، خواہ مرد ہو یا عورت۔ (شرح النووی علی مسلم، جلد14، صفحہ 123، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4365

تاریخ اجراء: 02 جمادی الاولٰی 1447ھ / 25 اکتوبر 2025ء