
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا عورت مقام ولایت حاصل کر سکتی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ولایت کسبی شے نہیں کہ بندہ محض سخت مشکل اعمال کر کے اسے حاصل کر لے بلکہ یہ ایک قربِ خاص ہے جسے اللہ عزوجل اپنے برگزیدہ بندوں کو محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرماتا ہے، البتہ! غالبا اعمال صالحہ اس عطیہ الہی کے لیے ذریعہ ہوتے ہیں اوربعضوں کوابتداء مل جاتی ہے، اور اس میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں بلکہ جس طرح مردوں میں سے اللہ تعالی جسے چاہے ولایت عطا فرماتا ہے، اسی طرح خواتین میں سے بھی جسے چاہتاہے ولایت عطا فرماتا ہے جیسا کہ حضرت مریم بنت عمران، اور حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہما ہیں، ان کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے، اور حضرت رابعہ بصریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وغیرہ بے شمار صالحات امت کے حالات و واقعات وکرامات واحوال کا کتابوں میں ذکر موجود ہے۔
شرح عقائد میں ہے
”الولي هو العارف بالله تعالى وصفاته حسب ما يمكن، المواظب على الطاعات المجتنب عن المعاصي المعرض عن الانهماك في اللذات والشهوات“
ترجمہ: ولی وہ ہے جو اللہ تعالی اور اس کی صفات کاممکنہ حد میں معرفت رکھنے والا ہو، طاعتوں پر مواظبت کرنے والا، گناہوں سے بچنے والا اور اپنی ذات و شہوات میں ڈوبنے سے اِعراض کرنے والا ہو۔ (شرح العقائد النسفیۃ، صفحہ316، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
فتاوی رضویہ میں ہے ”ولایت کسبی نہیں محض عطائی ہے، ہاں کوشش اور مجاہدہ کرنے والوں کو اپنی راہ دکھاتے ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد21، صفحہ 606، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بہار شریعت میں ہے "ولایت ایک قربِ خاص ہے کہ مولیٰ عزوجل اپنے برگزیدہ بندوں کو محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرماتا ہے۔ ولایت وَہبی شے ہے، نہ یہ کہ اَعمالِ شاقّہ سے آدمی خود حاصل کرلے، البتہ غالباً اعمالِ حسنہ اِس عطیہ الٰہی کے لیے ذریعہ ہوتے ہیں اور بعضوں کو ابتداء مل جاتی ہے۔" (بہار شریعت، جلد1، صفحہ264، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
"فیضان رابعہ بصریہ" نامی رسالہ میں ہے ”بصرہ میں اسماعیل نامی نیک سیرت بزرگ رہا کرتے تھے عبادت و ریاضت، زہد و تقوی، صبر و قناعت وغیرہ اچھے اوصاف کے مالک بظاہر بہت غریب تھے ۔۔۔ ان کی چوتھی بیٹی تھی، اس کا نام انہوں نے رابعہ رکھا اور ان کی یہ بیٹی آگے چل کر بہت بڑی ولیہ بنی اور رابعہ بصریہ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ (فیضانِ رابعہ بصریہ، صفحہ 1، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4179
تاریخ اجراء: 09ربیع الاول1447 ھ/03ستمبر 2520 ء