دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے خاندان میں جب لڑکا پیدا ہوتا ہے، تو رواج ہے کہ اس کے بال کسی مزار پر جاکر اترواتے ہیں، اگرچہ وہ بچہ 2 یا 3 سال کا ہی کیوں نہ ہو جائے،مزار پر لے جانے سے پہلے اس کے ابتدائی بال نہیں کٹواتے،شریعت مطہرہ اس حوالے سے ہماری کیا رہنمائی فرماتی ہے، کیا ایسا کرنا درست ہے یا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
بچہ پیدا ہونے کے بعد نہلا دھلا کر اولیائے کرام کے مزارات پر لے جانا اور وہاں برکت طلب کرنا، جائز ہے، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن بچے کے پیدائشی بالوں کو مزار پر ہی اتروانے کو لازمی سمجھنا کہ جب تک مزار شریف پر حاضر نہیں ہوں گے، نومولود کے بال نہیں کٹوائیں گے، یہ طریقہ بے اصل، بدعت اور شریعت مطہرہ کے مخالف ہے، لہٰذا یہ رواج درست نہیں، کیونکہ بچے کے پیدائشی بالوں کو اتروانے کے متعلق حکم شرعی یہ ہے کہ بچہ پیدا ہونے کے بعد ساتویں دن اس کے بال اتروائے جائیں، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم سے یہی منقول ہے اور یہ طریقہ مستحب ہے۔ لہٰذا شرعی احکام کی پاسداری کرتے ہوئے، نومولود بچے کے ابتدائی بال مزار شریف پر نہ اتروائے جائیں، بلکہ شریعت کے مخالف اس رواج کو ختم کیا جائے اور پیدائش کے ساتویں دن بچے کے بال اتروانے کا اہتمام کیا جائے۔
نومولود بچے کو مزارات پر لے جانے اور وہاں پر بال اتروانے کے متعلق امامِ اہلِ سنّت، شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”بچہ پیدا ہوتے ہی نہلا دھلا کر مزارات اولیائے کرام پر حاضر کیا جائے اس میں برکت ہے زمانہ اقدس میں مولود کو خدمت انور میں حاضر لاتے اور اب مدینہ طیبہ میں روضہ انور پر لیجاتے ہیں۔۔۔۔ بال اتارنے سے اگر مقصود وہ ہے، جس کا عقیقہ کے دن حکم ہے تو یہ ایک ناقص چیز کا ازالہ ہے مزارات طیبہ پر لیجا کر کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا، بلکہ بال گھر پر دور کر کے لیجائیں۔ اور اگر مقصود جو بعض جاہل عورتوں میں دستور ہے کہ بچے کے سر پر بعض اولیائے کرام کے نام کی چوٹی رکھتی ہیں اور اس کی کچھ میعاد مقرر کرتی ہیں، اس میعاد تک کتنے ہی بار بچے کا سرمنڈے وہ چوٹی برقرار رکھتی ہیں، پھر میعاد گزار کر مزار پر لیجا کر وہ بال اتارتی ہیں، تو یہ ضرور محض بے اصل و بدعت ہے۔“ (فتاوی افریقہ، صفحہ 67- 68، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ)
مزار پر بال اتروانا، فضول عمل ہے، جیساکہ اسی میں ہے: ”اور بال وہاں (مزار پر) اتروانا، فضول اور اس کی منت باطل ہے۔ (فتاوی افریقہ، صفحہ 147، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ)
نو مولود بچے کے بال ساتویں دن اتارے جائیں، جیسا کہ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم الغلام مرتهن بعقيقته تذبح عنه يوم السابع، و يسمى، و يحلق رأسه
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہر بچہ اپنے عقیقہ کے بدلے گروی رکھا گیا ہے، لہذا اس کی طرف سے ساتویں دن عقیقہ میں جانور ذبح کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور اس کے بال اتارے جائیں۔ (سنن الترمذي، جلد 3، صفحه 181، مطبوعه دار الغرب الاسلامي، بيروت)
مذكوره حديثِ مبارك كے الفاظ”و يحلق رأسه“کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے:”أي يومئذ“ترجمہ: یعنی اسی (ساتویں) دن بال اتارے جائیں۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 7، صفحہ 2689، مطبوعہ دار الفكر، بيروت)
نومولود بچے کے بالوں کو ساتویں دن اتروانا، مستحب ہے، جیساکہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ / 1836ء) لکھتے ہیں:
يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه و يحلق رأسه
ترجمہ: جس کے ہاں بچے کی ولادت ہو، اس کے لیے مستحب ہے کہ بچے کا ساتویں دن نام رکھے، اس کے سر کو مونڈوائے۔ (رد المحتار، جلد 9، صفحہ 554، مطبوعہ کوئٹہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9568
تاریخ اجراء: 23 ربیع الثانی 1447ھ / 17 اکتوبر 2025ء