بیٹی کے نام کے ساتھ والد کا نام لگانا کیسا؟

بیٹی کے نام کے ساتھ والد کا نام لگانے کا حکم

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

اپنی بیٹی کے نام کے آخر میں اپنا نام لگانا جائز ہے یا نہیں؟ اور مہربانی فرما کر مشورہ دیں کہ بچے کا نام رکھنے اور کنیت دینے میں کیا صحیح ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

بیٹی کے نام کے آخر میں والد کا نام لکھنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ نیز بچوں کے نام اور کنیت رکھنے کے حوالے سے اصول یہ ہے کہ: ایسا نام اورکنیت رکھی جائے ،جس کے معنی اچھے ہی ہوں، وہ اللہ تعالی یاکسی نبی علیہ الصلوۃ و السلام یا فرشتے وغیرہ کے ساتھ خاص نہ ہو، اس میں فخر و تکبر یا خود ستائی کے معنی نہ ہوں، کفارکے ساتھ خاص نہ ہو، الغرض کسی قسم کی کوئی شرعی ممانعت نہ ہو۔ نیز اللہ پاک کے نیک بندوں کے ناموں پر نام رکھنا مستحب ہے (جبکہ وہ ان کے ساتھ خاص نہ ہو) کہ حدیث پاک میں اس کی ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے، اور اس سے امید ہے کہ ان کی برکتیں بچے کو نصیب ہوں گی۔ نیز بہتر ہے کہ حتی الامکان بڑے بیٹے کے نام پر کنیت رکھی جائے۔

الفردوس بماثور الخطاب میں ہے

تسموا بخياركم

ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔ (الفردوس بماثور الخطاب، جلد 2، صفحہ 58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)

حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے

قسم یختص بالکفار۔۔۔ کجرجس و پطرس و یوحنا، فھذا۔۔۔ لایجوز للمسلمین التسمی بہ لما فیہ من المشابھۃ

ترجمہ: ناموں کی ایک قسم ایسی ہے جو کافروں کے ساتھ خاص ہے مثلاً جرجس، پطرس اور یوحنا، لہٰذا اس قسم کے نام مسلمانوں کے لئے رکھنا جائز نہیں؛ کیونکہ اس میں کافروں سے مشابہت پائی جاتی ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد 6، صفحہ 358، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ”انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔“ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

فتاوی رضویہ میں ہے ”حدیث سے ثابت کہ محبوبانِ خدا، انبیاء و اولیاء علیہم الصلٰوۃ و الثناء کے اسمائے طیبہ پرنام رکھنا مستحب ہے جبکہ ان کے مخصوصات سے نہ ہو۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 685، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "اچھے نام کا اثر نام والے پر پڑتا ہے اچھا نام وہ ہے جو بے معنیٰ نہ ہو جیسے بدھوا، تلوا وغیرہ اور فخر و تکبر نہ پایا جائے جیسے بادشاہ، شہنشاہ وغیرہ اور نہ برے معنیٰ ہوں جیسے عاصی وغیرہ، بہتر یہ ہے کہ انبیائے کرام یا حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے صحابہ عظام، اہلِ بیت اطہار کے ناموں پر نام رکھے جیسے ابراہیم، اسمٰعیل، عثمان، علی، حسین و حسن وغیرہ، عورتوں کے نام آسیہ، فاطمہ، عائشہ وغیرہ اور جو اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے وہ ان شاء اللہ بخشا جائے گا اور دنیا میں اس کی برکات دیکھے گا۔" (مراۃ المناجیح، جلد 5، صفحہ 30، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

سنن نسائی میں ہے

عن ابیہ هانئ، أنه لما وفد إلى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم سمعه وهم يكنون هانئا أبا الحكم، فدعاه رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم فقال له: «إن اللہ هو الحكم و إليه الحكم، فلم تكنى أبا الحكم؟» فقال: إن قومي إذا اختلفوا في شيء أتوني فحكمت بينهم، فرضي كلا الفريقين، قال: «ما أحسن من هذا، فما لك من الولد؟» قال: لي شريح، و عبد اللہ، و مسلم، قال: «فمن أكبرهم؟» قال: شريح، قال: «فأنت أبو شريح»

ترجمہ: حضرت ہانی اپنی قوم کے ساتھ وفد بن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے لوگوں کو سنا کہ وہ انہیں ابو الحکم کنیت کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں بلایا پھر فرمایا کہ اللہ ہی حکم ہے اور اسکی طرف فیصلے ہیں تمہاری کنیت ابو الحکم کیوں ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میری قوم جب کسی بات میں جھگڑتی ہے تو میرے پاس آجاتی ہے میں ان کے درمیان فیصلہ کردیتا ہوں تو دونوں فریق میرے فیصلہ سے راضی ہوجاتے ہیں تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ کیا ہی اچھا ہے، تو کیا تمہارے کوئی لڑکا ہے؟ بولے: میرے لڑکے شریح اور مسلم اور عبد اللہ ہیں فرمایا ان میں بڑ ا کون ہے؟ تو انہوں نے عرض کی، شریح، فرمایا: تو تم ابو شریح ہو۔ (سنن نسائی، رقم الحدیث 5387، ج 8، ص 226، مكتب المطبوعات الإسلامية)

اس حدیث پاک کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے

(فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: ما أحسن هذا) أي: الذي ذكرته من الحكم بالعدل، أو من وجه التكنية و هو الأولى۔۔۔ و أغرب المظهر في قوله: ما للتعجب، يعني: الحكم بين الناس حسن، و لكن هذه الكنية غير حسنة۔۔۔ (قال: و من أكبرهم) : في شرح السنة: فيه أن الأولى أن يكنى الرجل بأكبر بنيه، فإن لم يكن له ابن فبأكبر بناته، و كذلك المرأة بأكبر بنيها، فإن لم يكن لها ابن فبأكبر بناتها

ترجمہ: (تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یہ کیا ہی اچھا ہے) یعنی تم نے جو عدل کے ساتھ فیصلہ کرنے کا ذکر کیا یا کنیت کی وجہ ذکر کی اور وہ اچھی ہے، مظہر نے اپنے قول "ما، تعجب کے لئے ہے"میں عجیب بات ذکر کی کہ لوگوں کے مابین فیصلہ کرنا اچھا ہے لیکن یہ کنیت اچھی نہیں۔ (فرمایا: اور ان میں بڑا کون ہے) شرح السنۃ میں ہے: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ بہتر یہ ہے کہ مرداپنی کنیت اپنے سب سے بڑے بیٹے کی طرف منسوب کرکے رکھے، پھر اگر اس کا بیٹا نہ ہو تو اپنی سب سے بڑی بیٹی کی طرف، یو نہی عورت اپنی کنیت اپنے سب سے بڑے بیٹے کی طرف منسوب کر کے رکھے اور اگر اس کا بیٹا نہ ہو تو اپنی سب سے بڑی بیٹی کی طرف۔ (مرقاۃ المفاتیح، ج 7، ص 3003، 3004، دار الفكر، بيروت)

مذکورہ حدیث پاک کے تحت ہی مراٰۃ المناجیح میں ہے "(تمہاری کنیت ابو الحکم کیوں ہے) یعنی کنیت اچھی نہیں کہ اس کے ایک معنی بہت ہی برے ہیں دو معنی والا نام نہ رکھو جس کے ایک معنی معیوب ہوں۔۔۔ (یہ کیا ہی اچھا ہے) یعنی تمہارا یہ کام تو بہت ہی اچھا قوم کے جھگڑے چکا دینا ان کی عداوتیں ختم کردینا بہت ہی اچھا کام ہے مگر اس کے باوجود اپنی کنیت ابو الحکم رکھنا اچھا نہیں کہ حکم اللہ تعالٰی کے ناموں میں سے ایک نام ہے چنانچہ اگلا سوال حضور نے فرمایا اور ہوسکتا ہے کہ ما نافیہ ہو اور معنی یہ ہوں کہ یہ کنیت اچھی نہیں کہ حکم رب تعالٰی کا نام ہے اور وہ باپ بیٹا ہونے سے پاک ہے اگرچہ تمہاری نیت بری نہیں مگر اس لفظ میں برے معنی کا احتمال تو ہے۔" (مراٰۃ المناجیح، ج 6، ص 415، 416، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا ذاکر حسین عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4502

تاریخ اجراء: 12 جمادی الاخریٰ 1447ھ / 04 دسمبر 2025ء