بیوی کو محارم سے ملنے سے روکنا کیسا؟

شوہر کا بیوی کو اس کے محارم سے ملنے سے روکنا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ہم یوکے میں رہتے ہیں اور بیوی کے والدین پاکستان میں رہتے ہیں، مالی طور پر کوئی مسئلہ نہیں ہے اور بیوی کے سگے رشتہ دار یوکے میں رہتے ہیں جیسے پھوپھو اور تایا، اگر بیوی دو یا تین ماہ کے بعد ان سے ملنے کا کہے اور وہ دویا تین ماہ کے بعد اپنے والدین کو نہیں مل سکتی تو اس صورت میں شوہر کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

شوہر پر شرعا اگرچہ اپنی بیوی کو اس کے والدین اور محارم سے لے جا کر ملانا واجب نہیں ہے، لیکن ممکنہ صورت میں اخلاقی و معاشرتی اعتبار سے اس کو والدین اور محارم سے ملاتے رہنا چاہئے کہ عورت اپنے والدین کے یہاں ہر ہفتہ میں ایک بار اور دیگر محارم کے یہاں سا ل میں ایک بار جاسکتی ہے۔ اس کے لئے اسے شوہر سے اجازت کی بھی حاجت نہیں ہے۔ البتہ اس سے زائد بار اجازت سے ہی جائے۔ یونہی وہاں رات رکنے کے لئے شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اس لئے یہ کام خوش اسلوبی اور باہم رضامندی سے پورا کرنا چاہئے کہ ایک خوشحال ازدواجی زندگی حسن معاشرت کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے، اگر صرف فرائض کی ادائیگی پر اکتفا کیا جائے، تو ایک خوشحال ازدواجی زندگی قائم نہیں رہ سکتی، حسن معاشرت کے طور پر ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے، بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو کہ شرعا بیوی پر بھی لازم نہیں ہوتیں لیکن شوہر کی ان ضروریات کو حسن معاشرت کے طور پر بیوی پورا کر رہی ہوتی ہے لہٰذا شوہر او ر بیوی دونوں کو ہی ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہئے اور اسے خوش دلی سے سر انجام دینا چاہئے۔

سنن الترمذی میں ہے

قال رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم: خيركم خيركم لأهله و أنا خيركم لأهلی

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہو اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک کرنے والا ہوں۔ (سنن الترمذی، جلد5، صفحہ709، حدیث:3895، مطبوعہ: مصر)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ الله علیہ اس حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”بڑا خليق (اچھے اخلاق والا) وہ ہے جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خلیق ہو کہ ان سے ہر وقت کام رہتا ہے، اجنبی لوگوں سے خلیق ہونا کمال نہیں کہ ان سے ملاقات کبھی کبھی ہوتی ہے۔ (مرآة المناجیح، جلد 5، صفحہ 96، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

نیز بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے معاشرتی طور پر بھی بہت فوائد ہیں۔ حجۃ الوادع کے موقع پررسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو ایک تاریخ ساز خطبہ دیا۔ اس خطبے کی سنہری تعلیمات میں یہ بھی شامل ہے

فاتقوا اللہ فی النساء فانکم اخذتموھن بامان اللہ

یعنی: عورتوں کے معاملے میں اللہ عزوجل سے ڈرو کہ تم نے ان کو اللہ کی امان کے ساتھ لیا ہے۔ (صحیح مسلم، جلد 2، صفحہ 886، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”بے اس کے اذن کے محارم کے سوا کہیں نہیں جاسکتی اور محارم کے یہاں بھی ماں باپ کے یہاں ہرآٹھویں دن وہ بھی صبح سے شام تک کے لئے اور بہن، بھائی، چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی کے یہاں سال بھر بعد اور شب کو کہیں نہیں جاسکتی۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 380، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

مزید ایک مقام پر فرماتے ہیں: ”شوہر اگر اپنے پاس بلانا چاہے تو عورت کو باپ کے گھر رہنے کا کوئی اختیار نہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد 13، صفحہ 216، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

بہارِ شریعت میں ہے ”عورت اپنے والدین کے یہاں ہر ہفتہ میں ایک بار اور دیگر محارم کے یہاں سا ل میں ایک بار جاسکتی ہے، مگر رات میں بغیر اجازت شوہر وہاں نہیں رہ سکتی، دن ہی دن میں واپس آئے۔“ (بہار شریعت، جلد 2، حصہ 8، صفحہ 272، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی

فتوی نمبر: WAT-4266

تاریخ اجراء: 03 ربیع الآخر 1447ھ / 27 ستمبر 2025ء