
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
جوان شخص کا اپنی جوان چچی سے بے تکلف ہونا، بلا ضرورت یا ضرورت کے تحت باتیں کرنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
غیر مَحَارِم رشتہ داروں سے بھی پردہ کرنا لازم ہے بلکہ پردہ کے معاملے میں ان سے زیادہ احتیاط کرنا لازم ہے کہ جان پہچان اور رشتہ داری کی وجہ سے ان کے درمیان جھجک کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ایک بِالکل ناواقف اجنبی کی بنسبت ان سے فتنوں کا اندیشہ زیادہ رہتا ہے۔ ان کے ساتھ خلوت یعنی تنہائی میں جمع ہونا یا ان کے سامنے اس حالت میں آنا کہ بال، گردن، کلائی، پنڈلی، پیٹ یا پیٹھ وغیرہ اعضائے ستر میں سے کچھ ظاہر ہو سخت حرام و گناہ ہے، یونہی ایسے باریک کپڑے پہن کر ان کے سامنے آنا کہ جن سے اعضائے ستر کی رنگت ظاہر ہو، یہ بھی ناجائز و گناہ ہے۔
نامحرم عورت اگرچہ چچی تائی ہو ، اس سے بے تکلف ہو کر بات کرنا تو بہر حال ناجائز ہے۔ صرف ضرورت کی بات چند الفاظ میں دو ٹوک کی انداز میں کی جائے، بلا وجہ طول دینے یا دوسرے کسی غیر شرعی طریقے کو اختیار کرنے کی ہرگز اجازت نہیں۔ نیز عورت پر بھی لازم ہے کہ غیر محرم سے ضرورتاً بات کرنی پڑے تو پردے کی قیودات کے ساتھ صرف ضرورت کی بات کرے اور اس میں بھی آواز لوچ دار و نرم نہ ہو اور بے تکلفانہ انداز ہرگز اختیار نہ کرے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
ترجمہ: اے نبی کی بیبیو! تم اَور عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر اللہ سے ڈرو تو بات میں ایسی نرمی نہ کرو کہ دل کا روگی کچھ لالچ کرے ہاں اچھی بات کہو۔ (پارہ 22، سورۃ الاحزاب، آیت 32)
اس آیت کی تفسیر میں صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ”اس میں تعلیمِ آداب ہے کہ اگر بہ ضرورت غیر مرد سے پسِ پردہ گفتگو کرنی پڑے تو قصد کرو کہ لہجہ میں نزاکت نہ آنے پائے اور بات میں لوچ نہ ہو، بات نہایت سادگی سے کی جائے، عِفّت مآب خواتین کے لئے یہی شایاں ہے۔“ (تفسیر خزائن العرفان)
اور شیخ الحدیث والتفسیر مفتی محمد قاسم عطاری مد ظلہ العالی لکھتے ہیں: ”اس آیت سے معلوم ہو اکہ اپنی عفت اور پارسائی کی حفاظت کرنے والی خواتین کی شان کے لائق یہی ہے کہ جب انہیں کسی ضرورت ،مجبوری اور حاجت کی وجہ سے کسی غیر مرد کے ساتھ بات کرنی پڑ جائے تو ان کے لہجے میں نزاکت نہ ہو اور آواز میں بھی نرمی اور لچک نہ ہو بلکہ ان کے لہجے میں اَجْنَبِیّت ہو اور آواز میں بیگانگی ظاہر ہو، تاکہ سامنے والا کوئی بُرا لالچ نہ کر سکے اور اس کے دل میں شہوت پیدا نہ ہو اور جب سیّد المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زیرِ سایہ زندگی گزارنے والی امت کی ماؤں اور عفت و عصمت کی سب سے زیادہ محافظ مقدس خواتین کو یہ حکم ہے کہ وہ نازک لہجے اور نرم انداز سے بات نہ کریں تاکہ شہوت پرستوں کو لالچ کا کوئی موقع نہ ملے تو دیگر عورتوں کے لئے جو حکم ہو گااس کا اندازہ ہر عقل مند انسان آسانی کے ساتھ لگا سکتا ہے۔“(صراط الجنان، جلد 8، صفحہ 17، مکتبۃ المدینہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: Web-2247
تاریخ اجراء: 19شوال المکرم1446ھ/18اپریل2025ء