دعا میں ہاتھ اٹھانا ضروری ہے؟

دعا میں ہاتھ اٹھانے کی شرعی حیثیت اور دعا کی اقسام

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ا گر کسی کو ہاتھ اٹھاتے وقت جسم میں درد ہوتا ہو اور وہ دعا میں ہاتھ اٹھائے بغیر دل ہی میں دعا کرلے، تو کیا وہ گناہ گار ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

عمومی طور پر جب کوئی بندہ دعا کرے، تو اس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ بندہ اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کرے، ہتھیلیاں آسمان کی طرف پھیلا کر دعا کرے، نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا بھی یہی طریقہ تھا اور لوگوں کو بھی اسی کا حکم ارشاد فرمایا گیا، اسی لئے علما نے آدابِ دعا میں یہ بات بیان کی کہ دعا کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سینے تک، کندھوں تک یا چہرے کے مقابل لائےیا اتنے بلند کرے کہ بغل کی سفیدی ظاہر ہوجائے اور اپنی ہتھیلیاں آسمان کی طرف پھیلائے کہ آسمان دعا کا قبلہ ہے۔

امام ابوداودرحمۃ اللہ علیہ اپنی سنن میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:

ان النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کان اذا دعا فرفع یدیہ مسح وجھہ بیدیہ

یعنی بے شک نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم جب دعا کرتے، تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اُٹھاتے اور اپنے دونوں ہاتھ چہرےپر پھیر لیتے تھے۔ (سنن ابی داود، جلد 2، صفحہ 79، مطبوعہ: بیروت)

نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کا حکم بھی ارشاد فرمایا،  چنانچہ سننِ ابی داؤد میں حضرت مالک بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

إذا سألتم اللہ فاسألوه ببطون أكفكم، و لا تسألوه بظهورها

یعنی جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو، تو اپنی ہتھیلی کے پیٹ سے کرو،پشت سے نہ کرو۔ (سنن ابی داود، جلد 2، صفحہ 78، مطبوعہ: بیروت)

اس حدیث کے تحت مراۃ المناجیح میں ہے: ”دعا کے وقت ہتھیلیاں آسمان کی طرف پھیلاؤ اور ہاتھوں کی پیٹھ زمین کی طرف رکھو کیونکہ مانگنے والا داتا کے سامنے لینے کے لئے ہتھیلی ہی پھیلاتا ہے“ (مراۃ المناجیح، جلد 3، صفحہ 298، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

مراۃ المناجیح میں ہی ایک اور مقام پر ہے: ”عام دعاؤں میں ہاتھ سینے تک اٹھانا سنت ہے کہ عادۃً بھکاری مانگتے وقت داتا کے سامنے یہاں تک ہی ہاتھ اٹھاتے اور پھیلاتے ہیں“ (مراۃ المناجیح، جلد 3، صفحہ 302، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

فضائلِ دعا میں ہے: ”ادب 24: بہ کمالِ ادب ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر سینے یا شانوں یا چہرے کے مقابل لائے یا پورے اٹھائے یہاں تک کہ بغل کی سپیدی ظاہر ہو، یہ ابتہال ہے (یعنی گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرنا)۔ ادب 25: ہتھیلیاں پھیلی رکھے۔ قال الرضاء: یعنی ان میں خم نہ ہو کہ آسمان قبلۂ دعا ہے، ساری کفِ دست مواجہ آسمان رہے“ (فضائلِ دعاء، صفحہ 75، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

عمومی دعاؤں کا یہی طریقہ ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے، لیکن اگر کوئی دعا کرتے ہوئے ہاتھ نہیں اٹھاتا، تو وہ گناہ گار بھی نہیں اور دعا کرنے کے ظاہری انداز میں مجبوری کے تحت ہاتھ نہیں بلند کرتا تو اس پر کوئی ملامت نہیں ہو سکتی کہ صحیح عذر میں تو واجب اور دیگر احکام میں رعایت مل جاتی ہے تو مستحب کام میں رعایت کیوں نہ ملے گی۔

واضح رہے کہ دعا کرنے کے دو انداز ہیں: ایک یہ ہے کہ بندہ ظاہری طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرے جس کے متعلق اوپر روایات بیان کی گئیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بندہ ظاہری دعا کے ساتھ ساتھ دل میں اللہ تعالی سے دعا کرے، فریاد کرے۔ جب دل میں دعا کی جائے، توعلما نے اس کا طریقہ ہی یہ بیان فرمایا ہے کہ ہاتھ اٹھائے بغیر دعا کی جائے کہ اللہ رب العالمین نے قرآنِ کریم میں پوشیدہ دعا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا، جس میں انسان باطنی طور پر دعا مانگتا ہے، ظاہر ہے کہ اس انداز پر ہاتھ اٹھائے بغیر ہی دعا کی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ بھی دعا کا ایک انداز ہے۔

چنانچہ اللہ رب العالمین ارشاد فرماتا ہے:

(اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةًؕ- اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ)

ترجمۂ کنز الایمان: اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے اور آہستہ ، بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔ (پارہ 8، سورۂ اعراف، آیت 55)

تفسیر خازن میں ہے:

و خفية يعني سراً في أنفسكم و هو ضد العلانية والأدب في الدعاء أن يكون خفياً لهذه الآية

یعنی خفیہ سے مراد اپنے دل میں لوگوں سے چھپا کر دعا کرو اور یہ علانیہ کی ضد ہے اور اس آیت کے پیشِ نظر دعا میں ادب یہ ہے کہ دعا پوشیدہ ہو۔ (تفسیر خازن، جلد 2، صفحہ 210، مطبوعہ:دار الکتب العلمیۃ)

درمختار میں ہے:

و في وتر البحر: الدعاء أربعة: دعاء رغبة يفعل كما مر ودعاء رهبة يجعل كفيه لوجهه كالمستغيث من الشئ، و دعاء تضرع يعقد الخنصر و البنصر و يحلق و يشير بمسبحته و دعاء الخفية ما يفعله في نفسه

یعنی البحر الرائق کے باب الوتر میں ہے:دعا چار طرح کی ہے: ایک ”دعائے رغبت“ یہ اس طرح کی جائے گی جیسے پیچھے گزرا (یعنی اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے)، ”دعائے رہبت“ اس میں اپنی ہتھیلی کو اپنے چہرے کی طرف رکھے جیسے کسی کام پر مدد طلب کرنے والا اور ”دعائے تضرع“ اس میں چھنگلیا اور اس کے برابر والی انگلی کو ملائے اور حلقہ بنائے اور شہادت والی انگلی سے اشارہ کرے اور چوتھی ہے ” دعائے خفیہ“ یہ وہ ہے جو دل میں کی جائے۔

علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ دعائے خفیہ کے تحت فرماتے ہیں:

قال في شرح المنية : يعني ليس فيه رفع لأن في الرفع إعلانا

یعنی شرح منیہ میں فرمایا:دعائے خفیہ میں ہاتھ نہیں اٹھائے جائیں گے، کیونکہ ہاتھ اٹھانے میں اعلان کرنا پایا جاتا ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 265، مطبوعہ: کوئٹہ)

حلیۃ الناجی میں ہے:

و فی دعاء الخفیۃ ما یفعلہ المرء فی نفسہ و یدعوہ بلا رفع الید لان فی الرفع اظھار حالہ و الممدوح اخفاء حالہ بقدر وسعہ لقولہ تعالیٰ: اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً

یعنی دعائے خفیہ وہ ہے جو آدمی اپنے دل میں کرتا ہے اور ہاتھ اٹھائے بغیر دعا کرتا ہے کیونکہ ہاتھ اٹھانے میں اپنی حالت کو ظاہر کرنا ہے جبکہ تعریف بقدرِ طاقت اپنے حال کو پوشیدہ رکھنے کی کی گئی ہے، کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا: تم اپنے رب سے دعا مانگو عاجزی و پوشیدگی کے ساتھ۔ (حلیۃ الناجی، صفحہ 335، مطبعہ عثمانیہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13703

تاریخ اجراء: 05 شعبان المعظم 1446ھ / 04 فروری 2025ء