
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
دنیا میں وقت کتنی دفعہ رکا ہے؟ حوالے کے ساتھ ارشاد فرمادیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیائے کرام علیھم الصلوۃ والسلام کے لیے وقت رکنے اور یونہی مولائے کائنات حضرت علی المرتضی شیر خدا کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کے لیے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے سبب سورج واپس پلٹنے کے متعلق روایات موجود ہیں۔ البتہ! عوام میں کچھ واقعات ایسے بھی مشہور ہیں جن کی کوئی اصل نہیں بلکہ بالکل من گھڑت ہیں،مثلا حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے اذان فجر نہ دینے پر سورج طلوع نہ ہونے والا واقعہ۔
وقت رکنے کے متعلق کچھ واقعات درج ذیل ہیں:
(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غزوہ خندق کے موقع پر عصر کی نماز پڑھنے کے لیے وقت رکا تھا، چنانچہ المواھب اللدنیہ میں ہے
روى حبس الشمس لنبينا- صلى الله عليه وسلم- أيضا يوم الخندق، حين شغل عن صلاة العصر(المواھب اللدنیۃ، جلد 2، صفحہ 260، مطبوعہ مصر)
(2) المعجم الاوسط میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم پر ایک مرتبہ سورج رک گیا تھا ، چنانچہ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
عن جابر: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر الشمس فتأخرت ساعة من نهار(المعجم الاوسط، جلد 4، صفحہ 224، حدیث نمبر: 4039، دار الحرمین، قاھرہ)
(3) معراج سے واپس آ کر جب حضور علیہ السلام نے قریش والوں کو بتایا کہ تمہارا ایک قافلہ بدھ کو یہاں پہنچ جائے گا، پھر جب بدھ کو دن ختم ہونے لگا تو حضور علیہ السلام کے دعا فرمانے پر سورج کو روک دیا گیا اور دن کچھ لمبا ہو گیا۔ چنانچہ مواھب اللدنیہ میں ہی ہے
و روى يونس بن بكير فى زيادة المغازى فى روايته عن ابن إسحاق، مما ذكره القاضى عياض: لما أسرى بالنبى- صلى الله عليه و سلم- و أخبر قومه بالرفقة و العلامة التى فى العير، قالوا: متى تجىء؟ قال: «يوم الأربعاء»، فلما كان ذلك اليوم أشرفت قريش ينتظرون، و قد ولى النهار، و لم تجئ، فدعا رسول الله- صلى الله عليه و سلم- فزيد له فى النهار ساعة و حبست عليه الشمس(المواھب اللدنیۃ، جلد 2، صفحہ 260، مطبوعہ مصر)
(4) حضرت یوشع بن نون علیہ الصلوۃ و السلام کے لیے بھی سورج رکا تھا جب آپ جمعہ کے روز جہاد کررہے تھے اور سورج ڈوبنے لگا تو آپ کو یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں، جنگ سے فارغ ہونے سے پہلے غروب نہ ہوجائے کہ ہفتے کا دن شروع ہوجائے گا اور ہفتے کو ان کے لیے قتال حلال نہیں تھا تو انہوں نے اللہ تعالی سے دعا کی جس پر سورج کو لوٹا دیا گیا یہاں تک کہ وہ جنگ سے فارغ ہوئے۔ چنانچہ تاریخ دمشق میں ہے
يوشع بن نون حين قاتل الجبارين يوم الجمعة، فلما أدبرت الشمس خاف أن تغيب قبل أن يفرغ منهم، ويدخل السبت، فلا يحل له قتالهم فيه، فدعا الله فرد له الشمس حتى فرغ من قتالهم (مختصر تاریخ دمشق، جلد 28، صفحہ 100، مطبوعہ دمشق)
اسی طرح حضرت سلیمان،حضرت موسی اور حضرت داؤد علی نبینا و علیھم الصلاۃ و السلام کے لیے بھی وقت رکنے کا ذکر روایات میں موجود ہے، یونہی امام طبرانی نے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت بیان کی ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نماز عصر قضا ہونے پر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا سے سورج کے واپس لوٹنے کاذکر ہے، چنانچہ حدیث پاک کے الفاظ یہ ہیں:
عن أسماء بنت عميس، أن رسول الله صلى الله عليه و سلم صلى الظهر بالصهباء، ثم أرسل عليا في حاجة، فرجع وقد صلى النبي صلى الله عليه وسلم العصر، فوضع النبي صلى الله عليه وسلم رأسه في حجر علي فنام، فلم يحركه حتى غابت الشمس، فقال النبي صلى الله عليه و سلم: «اللهم إن عبدك عليا احتبس بنفسه على نبيه فرد عليه الشمس» قالت: فطلعت عليه الشمس حتى رفعت على الجبال وعلى الأرض، وقام علي فتوضأ وصلى العصر، ثم غابت وذلك بالصهباء (المعجم الکبیر للطبرانی، جلد 24، صفحہ 144، حدیث نمبر: 382، مطبوعہ قاھرہ)
فتاویٰ شارح بخاری میں حضرت بلال کے اذان نہ دینے پر صبح نہ ہونے والے واقعہ کے متعلق سوال ہوا تو جوابا ارشاد فرمایا: "آپ نے جو واقعہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے اس کے قریب قریب بعض کتابوں میں درج ہے۔ لیکن تمام محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ روایت موضوع من گھڑت اور بالکلیہ جھوٹ ہے۔" (فتاویٰ شارح بخاری، جلد 2، صفحہ 38، مکتبہ برکات المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4089
تاریخ اجراء: 07 صفر المظفر 1447ھ / 02 اگست 2025ء