دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
حضرت آدم اور ان کے بعد والے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ و السلام کا کون سا قبلہ تھا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے لے کر حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام تک کعبہ ہی قبلہ رہا، پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام تک بیت المقدس قبلہ رہا اور مسلمان بھی مدینہ منورہ میں آنے کے بعد تقریباً سولہ، سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے اور اس کے بعد نماز ظہر کی ادائیگی کے دوران مسجدِ قِبْلَتَین میں قبلہ کی تبدیلی کا واقعہ ہوا۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے "حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے لے کر حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام تک کعبہ ہی قبلہ رہا، پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام تک بیت المقدس قبلہ رہا اور مسلمان بھی مدینہ منورہ میں آنے کے بعد تقریباً سولہ، سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے اور اس کے بعد نماز ظہر کی ادائیگی کے دوران مسجدِ قِبْلَتَین میں قبلہ کی تبدیلی کا واقعہ ہوا۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ حج ہمیشہ کعبہ ہی کا ہوا ہے، بیت المقدس کا حج کبھی نہیں ہوا۔" (صراط الجنان، جلد 1، صفحہ 252، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4520
تاریخ اجراء: 17 جمادی الاخریٰ 1447ھ / 09 دسمبر 2025ء