
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ ہمارے عموماً رواج ہے کہ جب کوئی نئی دکان کھولتا ہے، تو کسی عالم دین یا امام صاحب کو دکان میں بلوا کر دعائے خیر کروائی جاتی ہے۔ مارکیٹ میں ایک شخص کو اعتراض ہے کہ یوں کسی کو بُلوا کر دعا کروانا بے اصل ہے۔ اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے۔ہماری رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ عمل واقعی خلافِ شرع ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
نئی دکان یا کاروبار کے آغاز پر کسی عالمِ دین، امام یا کسی نیک اور صالح شخص کو بُلا کر قرآن خوانی اور دعائے خیر کروانا شرعاً جائز اور مستحسن عمل ہے۔ اسے بے اصل یا خلافِ شرع کہنا درست نہیں۔ درحقیقت کسی نیک شخص کو افتتاحی تقریب میں مدعو کرنے کے پیچھے اُن کی دعاؤں اور موجودگی سے برکت حاصل کرنے کی نیت ہوتی ہے اور یوں کسی دینی معزز شخصیت کو حصولِ برکت کے لیے بلانے کی اصل صحیح حدیث سے ثابت ہے،چنانچہ مشہور بدری انصاری صحابی حضرت عتبان بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنے گھر تشریف لانے کی درخواست کی تاکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے گھر میں نماز ادا فرمائیں اور وہ اس جگہ کو اپنی نماز کے لیے مخصوص کرلیں۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی درخواست قبول فرمائی اور اُن کے گھر جا کر نماز ادا فرمائی۔
چنانچہ ”صحیح البخاری“ میں ہے کہ حضرت عتبان بن مالک نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے:
يا رسول اللہ! قد أنكرت بصري، وأنا أصلي لقومي، فإذا كانت الأمطار، سال الوادي الذي بيني وبينهم، لم أستطع أن آتي مسجدهم فأصلي بهم، و وددت يا رسول اللہ أنك تأتيني فتصلي في بيتي، فأتخذه مصلى، قال: فقال له رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: سأفعل إن شاء اللہ. قال عتبان: فغدا رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم وأبو بكر حين ارتفع النهار، فاستأذن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم فأذنت له، فلم يجلس حتى دخل البيت ثم قال: أين تحب أن أصلي من بيتك؟. قال: فأشرت له إلى ناحية من البيت، فقام رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم فكبر، فقمنا فصفنا، فصلى ركعتين ثم سلم۔
ترجمہ:یا رسول اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میری بینائی کمزور ہو گئی ہے اور میں اپنی قوم کی امامت کرتا ہوں، لیکن جب بارشیں ہوتی ہیں تو میرے اور ان کے درمیان موجود وادی میں سیلاب آجاتا ہے، جس کی وجہ سے میں مسجد جا کر امامت نہیں کر پاتا۔ میری دلی خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لا کر کسی جگہ نماز ادا فرمائیں تاکہ میں اسی مقام کو اپنی نماز کے لیے مخصوص کر لوں۔ رحمتِ دو عالَمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی درخواست قبول فرماتے ہوئے فرمایا کہ ”ان شاء اللہ، میں ایسا ہی کروں گا۔“ چنانچہ اگلے روز جب دن بلند ہوا تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَحضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے ہمراہ تشریف لائے۔ گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب فرمائی اور اجازت ملنے پر اندر تشریف لا کر بیٹھنے کے بجائے فوراً دریافت فرمایا کہ ”تم اپنے گھر کے کس حصے میں پسند کرتے ہو کہ میں نماز پڑھوں؟“ حضرت عتبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا، جہاں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی۔ ہم نے بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے صف بنا لی اور آپ نے دو رکعت نماز ادا فرمانے کے بعد سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری، جلد 01، باب المساجد فی البیوت، صفحہ 92، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)
اس روایت کے تحت حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:852ھ/1449ء) لکھتے ہیں کہ یہ حدیث نیک لوگوں اور صالحین کے آثار اور اُن کی موجودگی سے برکت حاصل کرنے کی بہت بڑی دلیل ہے، چنانچہ لکھا:
قد تقدم حديث عتبان وسؤاله النبي صلى اللہ عليه و سلم أن يصلي في بيته ليتخذه مصلى و إجابة النبي صلى اللہ عليه و سلم إلى ذلك، فهو حجة في التبرك بآثار الصالحين۔
ترجمہ:حضرت عتبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی حدیث کا ذکر پہلےگزر چکا ہے،جس میں انہوں نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی درخواست کی تھی تاکہ وہ اُس جگہ کو جائے نماز بنالیں، اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن کی یہ درخواست قبول فرمائی تھی۔ یہ واقعہ، صالحین کے آثار سے برکت حاصل کرنے کے لیے ایک روشن دلیل اور حجت ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری، جلد 01، صفحہ 569، مطبوعة مصر)
دوسری جگہ لکھا:
و فيه اجتماع أهل المحلة على الامام أو العالم إذا ورد منزل بعضهم ليستفيدوا منه ويتبركوا بہ۔
ترجمہ:اور اس (حدیث) میں یہ دلیل بھی ہے کہ جب کوئی امام یا عالم (محلے میں) کسی کے گھر تشریف لائیں تو اہل محلہ کا ان سے استفادہ کرنے اور برکت حاصل کرنے کے لیے جمع ہو جانا ایک درست عمل ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری، جلد 01، صفحہ 523، مطبوعة مصر)
اِسی بات کو شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1422ھ/2001ء) نے یوں لکھا: جب کسی محلہ کے کسی گھر میں نیک لوگ آئیں، تو اہلِ محلہ کو اُن کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے تا کہ اُن کے فیوض وبرکات سے استفادہ کریں۔(تفھیم البخاری، جلد 1، صفحہ 769، مطبوعہ تفھیم البخاری پبلی کیشنز)
معلوم ہوا کہ نیک شخص کا وجود باعثِ برکت ہوتا ہے، لہذا اُن کا کسی گھر یا دکان میں آنا اور دعائے خیر کرنا یقیناً باعث خیروبرکت ہے۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9497
تاریخ اجراء: 11 ربیع الاول1447ھ/ 05 ستمبر 2025ء