
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ کشتی کھیلنا کیسا ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگرکُشتی صحیح مقصد کے لئے کھیلی جائے جیسے ورزش، جسم کی تندرستی وغیرہ، تو کشتی کھیلنا فی نفسہ جائز ہے اور اگر اس نیت سے ہوکہ جسم میں قوت آئے اور کفار سے لڑنے میں کام دے تو ثواب کاکام ہے، جبکہ کوئی اور شرعی خرابی نہ ہو، جیسے نمازیں قضا ہونا، ستر کا ظاہر ہونا، جوا لگانا وغیرہ، لیکن! اگر صرف لہوو لعب کے طور پر کھیلی جائے تو مکروہ اور اگر ستر کھول کر کشتی لڑی جائے، جیسا کہ آج کل عموماہوتاہے تو ناجائزو حرام ہے، اسی طرح اس کی وجہ سے کوئی نمازقضاکرنابھی جائز نہیں۔
در مختارمیں ہے
و المصارعۃ لیست ببدعۃ الاللتلھی فتکرہ
ترجمہ: اور کشتی لڑنابدعت نہیں ہے مگر جبکہ لہوولعب کے طورپر ہو تو اس صورت میں وہ مکروہ ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظرو الاباحۃ، ج 09، ص 666، مطبوعہ: کوئٹہ)
امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”ہر کھیل اور عبث فعل، جس میں نہ کوئی غرضِ دین، نہ کوئی منفعتِ جائزہ دنیوی ہو، سب مکروہ و بے جا ہیں، کوئی کم، کوئی زیادہ۔ (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 78، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہار شریعت میں ہے "کشتی لڑنا اگر لہو و لعب کے طور پر نہ ہو بلکہ اس لیے ہو کہ جسم میں قوت آئے اور کفار سے لڑنے میں کام دے، یہ جائزو مستحسن و کار ثواب ہے بشرطیکہ ستر پوشی کے ساتھ ہو۔ آج کل برہنہ ہو کر صرف ایک لنگوٹ یا جانگیا پہن کر لڑتے ہیں کہ ساری رانیں کھلی ہوتی ہیں یہ ناجائز ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلَّم نے رکانہ سے کشتی لڑی اورتین مرتبہ پچھاڑا، کیونکہ رکانہ نے یہ کہا تھا کہ اگر آپ مجھے پچھاڑ دیں تو ایمان لاؤں گا پھر یہ مسلمان ہوگئے۔" (بہار شریعت، ج 03، حصہ 16، ص 512، مکتبۃ المدینہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4222
تاریخ اجراء: 19ربیع الاول1447ھ/13ستمبر2025ء