کیا ہر عورت اپنے شوہر کی پسلی سے بنائی گئی ہے؟

کیا ہر عورت کو اس کے شوہر کی ٹیڑھی پسلی سے بنایا گیا ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ ہمارے معاشرے میں یہ مشہور ہے کہ عورت کو مرد کی ٹیڑھی پسلی سے بنایاگیا ہے۔ کیا ہر عورت کو اس کے مرد یعنی اس کے شوہر کی ٹیڑھی پسلی سے بنایا گیا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

یہ بات صرف حضرت حواء رضی اللہ عنہا کے متعلق ہے کہ انہیں آدم علیہ السلام کی ٹیڑھی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

استوصوا بالنساء خیرا فانھن خلقن من ضلع و ان اعوج شیئ فی الضلع اعلاہ فان ذھبت تقیمہ کسرتہ و ان ترکتہ لم یزل اعوج فاستوصوا بالنساء

ترجمہ: عورتوں سے متعلق بھلائی کی وصیت قبول کرو، کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور یقیناً پسلی کا ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر کا ہے، تو اگر اسے سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ دوگے، اور اگر چھوڑ دو تو ٹیڑھا رہے گا، لہٰذا عورتوں کے متعلق وصیت قبول کرو۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب الوصاۃ بالنساء، ج: 5، ص: 1987، ط:دار ابن کثیر)

اس کی شرح فتح الباری میں امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

و كأن فيه إشارة إلى ما أخرجه بن إسحاق في المبتدأ عن ابن عباس إن حواء خلقت من ضلع آدم الاقصر الأيسر و هو نائم و كذا أخرجه ابن أبي حازم و غيره من حديث مجاهد

ترجمہ: گویا کہ اس میں اس کی طرف اشارہ ہے جسے امام اسحاق نے مبتدا میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ جب حضرت آدم علیہ السلام سو رہے تھے تو حواء رضی اللہ عنہا ان کی بائیں اوپری پسلی سے پیدا ہوئیں، اسی طرح ابن ابی حازم وغیرہ نے مجاہد سے روایت کرتے ہوئے حدیث بیان کی۔ (فتح الباری شرح البخاری، ج 9، ص 253، دار المعرفة – بيروت)

مذکورہ حدیث کے تحت کوثر الجاری میں ہے:

يشير إلى أصلهن وهو خلق حواء من ضلع آدم فسرى ذلك السر في بناتها

ترجمہ: اس حدیث میں اشارہ عورتوں کی اصل کی طرف ہے یعنی حضرت حواء کا حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے بننا، اور یہ چیز ان کی تمام بیٹیوں میں سرایت کرگئی۔ (کوثر الجاری، ج 08، ص 500، دار احیاء التراث العربی)

علامہ آلوسی رحمہ اللہ روح المعانی میں لکھتے ہیں:

و يفهم من كلامهم أن هذا الخلق لم يقع هكذا إلا بين هذين الزوجين

ترجمہ: علماء کےکلام سے مفہوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی تخلیق صرف اسی جوڑے کے درمیان واقع ہوئی۔ (روح المعاني في تفسير القرآن العظيم، ج 2، ص 393، دار الكتب العلمية)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: HAB-0406

تاریخ اجراء: 13 صفر المظفر 1446ھ / 19 اگست 2024ء