کیا خواجہ سرا جنت میں جائیگا؟

کیا ہیجڑا جنت میں نہیں جائے گا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ہم نے سنا ہے کہ ہیجڑا جنت میں داخل نہیں ہوگا، کیا یہ درست ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ہیجڑے کے جنت میں داخل نہ ہونے سے متعلق حدیث موجود ہے، لیکن اس میں ہیجڑے سے کونسا ہیجڑا مراد ہے؟ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کی اقسام کو واضح کیا جائے۔

در اصل مخنث(ہیجڑے) دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک پیدائشی اور دوسرے محض بناوٹی۔

پیدائشی ہیجڑے یعنی جن کے اندر پیدائشی طورپرہی مرد و عورت دونوں کی علامات موجود ہوں، یا دونوں کی علامات نہ ہوں، ایسوں کو شرعی اصطلاح میں خنثیٰ کہا جاتا ہے۔ یہ بھی اللہ عزوجل کی ایک تخلیق ہے، جس میں بندے کا اپنا کوئی اختیار نہیں۔ ایسے خنثی افراد اگر ایمان والے ہوں، تو ان کے لیے بھی جنت کا وعدہ عام مؤمنین کی طرح ہے، محض خنثی ہونے کی بناء پر ان کے لیے کوئی وعید نہیں۔

البتہ! بناوٹی ہیجڑے جن کو مخنث کہا جاتا ہے، یہ وہ افراد ہوتے ہیں، جوحقیقت کے اعتبار سے تو مَرد ہوتے ہیں، لیکن اپنی چال ڈھال، حرکات و سکنات، وضع قطع اور ا ٓواز وغیرہا میں عورتوں کی سی صورت بناتے ہیں، ایسے افراد یقیناً عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے سخت مُجرم اور گنہگار ہیں۔ حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے ہی بناوٹی ہیجڑے بننے والے افراد پر لعنت فرمائی ہے اور یہی وہ بناوٹی مخنث ہیں جن کے متعلق بعض روایات میں جنت میں داخل نہ ہونے کی وعید وارد ہوئی ہے، جو کہ اس فعل کی شدید مذمت پر دلالت کرتی ہے۔

لیکن یہ مخنث (یعنی مرد ہو کر عورت بننے والے) افراد بھی (اگر ان کا ایمان پر خاتمہ ہو تو) جنت کے داخلے سےہمیشہ کے لئے محروم نہیں، کیونکہ جنت میں داخل نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ:

"ایسے بناوٹی مخنث افراد، سابقین یعنی ابتداءً جنت میں داخل ہونے والوں کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوپائیں گے۔"

یا پھر یہ مراد ہے کہ "بغیر سزا و عذاب کے جنت میں داخل نہ ہوں گے، بلکہ اپنے گناہوں کی سزا پاکر جنت میں داخل ہوں گے۔"

بہرحال ایسے مخنث افراد کا خاتمہ اگر ایمان پر ہوا تو اگرچہ یہ ہمیشہ کے لیے جنت سے محروم نہیں، لیکن ان کے لئےبناوٹی ہیچڑابننے کی وجہ سے جنت میں داخلے میں تاخیر اور دیگر وعیدات موجود ہیں۔

ہمارے عرف عام میں ہیجڑا، پیدائشی اور بناوٹی مخنث دونوں ہی کے لئے بولا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں مخنث (ہیجڑے) اورخنثی میں فرق ہے، چنانچہ موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے

الفرق بين المخنث و الخنثى: أن المخنث لا خفاء في ذكوريته و أما الخنثى فالحكم بكونه رجلا أو امرأة لا يتأتى إلا بتبين علامات الذكورة أو الأنوثة فيه

ترجمہ: مخنث اور خنثی کے درمیان فرق یہ ہے کہ مخنث کے مرد ہونے میں کوئی ابہام نہیں ہوتا،جبکہ خنثی کے مرد یا عورت ہونے کا حکم صرف اسی وقت دیا جا سکتا ہے جب اس میں مرد یا عورت کی علامات ظاہر ہوں۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، جلد 36، صفحہ 265، دار السلاسل، الکویت)

پیدائشی خنثی افراد بھی اگر اہل ایمان ہوں تو عام مؤمنین کی طرح جنت میں داخل ہوں گے، چنانچہ فتاوی بحر العلوم میں مفتی عبد المنان اعظمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ اگر کوئی شخص دوران تقریر مسجد میں یہ کہے کہ ہیجڑا جنت میں نہیں جائے گا،اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا: ”کتب فقہ کے باب الخُنثٰی میں اسی نوع کے احکام شرع از قسم نماز، روزہ، حج و زکوۃ، لباس پردہ، موت وحیات وغیرہ کے جملہ خصوصی احکام و مسائل کا بیان ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اہل ایمان ہو تو اس کو مسلمان مان کر اس کے یہ خصوصی مسائل تحریر ہوتے ہیں۔ اہل توحید و ایمان کے لیے تو حدیث شریف میں ہے:

من قال لا اله الا اللہ مخلصا دخل الجنة

(جس نے خلوصِ دل سے لا إلہ إلا اللہ کہا، وہ جنت میں داخل ہوگا)۔ (طبری:۵/۲۲۳) پھر اس مقرر بے تو قیر کو اس کے جنت میں داخلہ کی ممانعت کا حکم کہاں سے مل گیا۔“ (فتاوی بحر العلوم، جلد 4، صفحہ 150، شبیر برادرز، لاہور)

بناوٹی مخنث پر لعنت سے متعلق صحيح بخاری شریف کی حدیث مبارکہ ہے

عن ابن عباس، قال: لعن النبي صلى اللہ عليه و سلم المخنثين من الرجال، و المترجلات من النساء و قال: «أخرجوهم من بيوتكم»

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مردوں میں ہیجڑا بننے والوں پر اور مرد بننے والی عورتوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ انہیں اپنے گھروں سے نکال دو۔ (صحیح البخاری، جلد 7، صفحہ 159، رقم الحدیث: 5886،دار طوق النجاۃ)

اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ مراۃ المناجیح میں لکھتے ہیں: ”مخنث بنا ہے خنث سے بمعنی نرمی یا پیچیدگی۔ مخنث وہ لوگ جو ہوں تو مرد مگر ان کی آواز وضع قطع عورتوں کی سی ہو۔ مخنث دو قسم کے ہیں: ایک پیدائشی، دوسرے بناوٹی۔ یہاں بناوٹی مخنثوں کا ذکر ہے انہیں پر لعنت ہے کہ پیدائشی مخنث(خنثیٰ) تو مجبور ہے۔ معلوم ہوا کہ مرد کا عورتوں کی طرح لباس پہننا،ہاتھ پاؤں میں مہندی لگانا، عورتوں کی طرح بولنا، ان کی حرکات و سکنات اختیار کرنا سب حرام ہے کہ اس میں عورتوں سے تشبیہ ہے، اس پر لعنت کی گئی بلکہ ڈاڑھی مونچھ منڈانا حرام ہے کہ اس میں بھی عورتوں سے مشابہت اور عورتوں کے سے لمبے بال رکھنا، ان میں مانگ چوٹی کرنا حرام ہے کہ ان سب میں عورتوں سے مشابہت ہے، عورتوں کی طرح تالیاں بجانا، مٹکنا، کوے بلانا (زنانہ آوز اور لچکدار انداز میں پکارنا) سب حرام ہے اسی وجہ سے“۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 145، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

مراۃ المناجیح میں ایک اور مقام پر ہے ”مخنث وہ ہے جو حرکات و سکنات، گفتار و رفتار میں عورتوں کی طرح ہو اگر قدرتی یہ حالت ہو تو وہ گنہگار نہیں اور اگر مرد ہے مگر عورت کی شکل بناتا ہے تو بفرمان حدیث ملعون ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مرد بننے والی عورتوں پر اور عورت بننے والے مردوں پر لعنت فرمائی۔“ (مراۃ المناجیح، جلد 5، صفحہ 23، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

بناوٹی مخنث کے جنت میں نہ داخل ہونے سے متعلق "الفردوس بماثور الخطاب" میں حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے

لما خلق اللہ عز وجل الجنة قال لها تكلمي تزيني فتزينت فقالت طوبى لمن دخلني و رضي عنه إلهي فقال اللہ عز و جل لا يسكنك مخنث و لا نائحة

ترجمہ: جب اللہ عزوجل نے جنت کو پیدا فرمایا، تو اس سے فرمایا: بات کر اور مزین ہوجا، تو جنت نے زینت اختیار کی اور کہا: خوش نصیب ہے وہ شخص جو میرے اندر داخل ہو اور میرا رب اس سے راضی ہو۔ تو اللہ عزوجل نے فرمایا: تجھ میں نہ مخنث (یعنی زنانہ پن اختیار کرنے والا مرد) رہے گا اور نہ نوحہ کرنے والی عورت۔ (الفردوس بماثور الخطاب، جلد 3، صفحہ 423، رقم الحدیث: 5296، دار الكتب العلمية، بيروت)

امام غزالی علیہ الرحمۃ اسی طرح کی ایک حدیث "احیاء علوم الدین" میں نقل فرماتے ہیں:

عن ابن عمر عن النبي صلى اللہ عليه و سلم إن اللہ لما خلق الجنة قال لها تكلمي فقالت سعد من دخلني فقال الجبار جل جلاله و عزتي و جلالي لا يسكن فيك ثمانية نفر من الناس لا يسكنك مدمن خمر و لا مصر على الزنا و لا قتات و هو النمام و لا ديوث و لا شرطي و لا مخنث و لا قاطع رحم و لا الذي يقول على عهد اللہ إن لم أفعل كذا و كذا ثم لم يف به

ترجمہ: حضرتِ ابن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے،وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب جنت کو پیدا فرمایا تو اس سے فرمایا کہ مجھ سے بات کر، وہ بولی کہ جو میرے اندر آگیا وہ سعادت مند ہوا، تب ربِ جبار جَلَّ جَلَالُہٗ نے فرمایا مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! تیرے اندر آٹھ قسم کے لوگ داخل نہیں ہوں گے، عادی شرابی، زنا پر اصرار کرنے والا، چغل خور، دیوث، (ظالم) سپاہی، ہیجڑا (یعنی مرد ہو کر عورت بننے والا شخص)، قطع رحمی کرنے والا اور وہ شخص جو یہ کہتا ہےکہ میرا خدا سے عہد ہے کہ فلاں فلاں برا عمل نہیں کروں گا مگر وعدہ پورا نہیں کرتا۔ (احیاء علوم الدین، جلد 3، صفحہ 155، دار المعرفة، بيروت)

مخنث کے جنت میں داخل نہ ہونے سے مراد سابقین کے ساتھ داخل نہ ہونا ہے، یا بغیرسزا کےداخل نہ ہونا مراد ہے، کیونکہ بعض دوسرے گناہ گار افراد کےجنت میں داخل نہ ہونے کے متعلق جو احادیث مروی ہیں،ان کے جنت میں داخل نہ ہونے سے مراد شارحین حدیث نے اسی طرح کی توجیہات فرمائی ہیں۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے

قال النووي: قد سبق نظائره مما حمل تارة على من يستحل القطعة بلا سبب، و لا شبهة مع علمه بتحريمها، و أخرى لا يدخلها مع السابقين. قلت: وأخرى لا يدخلها مع الناجين من العذاب

ترجمہ: امام نووی نے فرمایا کہ اس کی نظائر پہلے بھی گزر چکی کہ بعض اوقات اس کو اس شخص پر محمول کیا جاتا ہے جو قطع رحمی کو بغیر کسی سبب اور شبھہ کے، اس کی حرمت کے علم ہونے کے باوجود حلال جانے۔ اور بعض اوقات اس پر محمول کیا جاتا ہے کہ وہ شخص جنت میں سابقین کے ساتھ داخل نہیں ہو گا۔ میں کہتا ہوں کہ اور بعض اوقات اس کو اس پر بھی محمول کیا جاتا ہے کہ وہ عذاب سے نجات پانے والوں کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 7، صفحہ 3086، دار الفکر، بیروت)

گناہ کے ارتکاب سے بندہ کافر نہیں ہوتا، لہذا وہ آخر کار جنت میں ضرور داخل ہوگا، چنانچہ عمدۃ القاری میں ہے

قال الكرماني المؤمن بالمعصية لا يكفر فلا بد من أن يدخل الجنة

ترجمہ: امام کرمانی علیہ الرحمۃ نے فرمایا: مومن، گناہ سے کافر نہیں ہوتا، لہٰذا لازمی طور پر وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (عمدۃ القاری، جلد 22، صفحہ 91، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح میں لکھتے ہیں: ”مسلمان خواہ کتنا ہی گنہگار ہو آخر کار جنت میں جائے گا۔“ (مراۃ المناجیح، جلد 4، صفحہ 262، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4132

تاریخ اجراء: 26 صفر المظفر 1447ھ / 21 اگست 2025ء