بیماری کا علاج کروانا توکّل کے خلاف ہے؟

کیا علاج کروانا توکل کے خلاف ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ کیا علاج کروانا توکُّل کے خلاف ہے؟

سائل: محمد ابو بکر (فیصل آباد)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

توکل، اسباب ترک کردینے کا نام نہیں بلکہ اسباب اختیار کرتے ہوئے مُسَبِّب الاسباب پر اعتماد کرنے کا نام ہے، تو جب انسان کا اعتقاد یہ ہو کہ شفا دینے والی ذات اللہ تعالی کی ہے اور اُسی ذات نے علاج و معالجہ (Treatment)کو حصولِ شفا کا ایک ذریعہ بنایا ہے، تو پھر علاج کروانے میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی یہ توکُّل کے خلاف ہے، بلکہ علاج کروانا مسنون عمل بھی ہے کہ خود سیِّدُ المُتَوکِّلین یعنی توکُّل کرنے والوں کے سردار،نبیِ مکرَّم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی علاج کروایا اور اس کی اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: بیشک اللہ تعالی نے بیماری اور دوا (دونوں ) اتارے ہیں اور ہر بیماری کے لیے دوا بنائی ہے ، تو تم علاج کیا کرو۔ لہٰذا اِس اعتقاد کے ساتھ علاج کروانا کہ اللہ تعالی ہی شفا دینے والا ہے، یہ توکُّل کے ہرگز خلاف نہیں۔

توکُّل کے متعلق ارشادِ باری تعالی ہے:

(وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ)

ترجمہ کنز العرفان:اور اگر تم ایمان والے ہو، تو اللہ ہی پر بھروسہ کرو۔ (القرآن الکریم، پارہ 6 ، سورۃ المائدۃ ، آیت : 23)

توکُّل کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات: 671ھ / 1273ء)لکھتے ہیں:

أن اللہ تعالى قد خلق للآدمي آلة يدفع عنه بها الضرر،وآلة يجتلب بها النفع، فإذا عطلها مدعيا للتوكل كان ذلك جهلا بالتوكل ... لأن التوكل إنما هو اعتماد القلب على اللہ تعالى، وليس من ضرورته قطع الأسباب

ترجمہ: اللہ تعالی نے آدمی کے لیے ایسے اسباب پیدا فرمائے ہیں کہ جن کے ذریعے وہ ضَرر کو دور کرتا اور نفع حاصل کرتا ہے، تو جب بندہ توکُّل کا دعوی کرتے ہوئے، اِن اسباب کو چھوڑ دے، تو یہ در اصل توکُّل سے ناواقفیت ہے، کیونکہ توکل اللہ تعالی کی ذات پر، دل کے اعتماد کرنے کا نام ہے اور توکل کے لیے ترکِ اسباب ضروری نہیں۔(تفسیر القرطبی، جلد 9، صفحہ 309، مطبوعہ دارالکتب المصریۃ، القاھرۃ)

نبی مکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خود علاج کروانے کے متعلق ”السنن الکبری للنسائی“ میں ہے:

قد احتجم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم قال: و قال: خير ما تداويتم به الحجامة والقسط البحري

ترجمہ:رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نےپچھنے لگوائے اورراوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ فرمایا کہ جن چیزوں کے ذریعے تم علاج کرتے ہو، ان میں بہترین چیز پچھنے لگوانا اور قُسطِ بحری ہے۔ (السنن الکبری للنسائی ، جلد 7 ، کتاب الطب، صفحہ 88، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

علاج کروانے کی اجازت دینے کے متعلق ”سنن لابی داؤد “میں ہے:

عن أبي الدرداء، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: إن اللہ أنزل الداء والدواء، وجعل لكل داء دواء فتداووا

ترجمہ:حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:بیشک اللہ تعالی نے بیماری اور دوا (دونوں) کو اتارا ہے اور ہر بیماری کے لیے دوا بنائی ہے ، لہذا تم علاج کیا کرو۔(ابو داؤد ، جلد 4 ، کتاب الطب، صفحہ 7، مطبوعہ المكتبة العصرية، بيروت)

اسی طرح کی ایک حدیثِ مبارک کو ذکر کرتے ہوئے، علاج کروانے کے سنت ہونے اور خلافِ توکُّل نہ ہونے کے متعلق علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1014ھ/1605ء) ایک مقام پر لکھتے ہیں:

يسن التداوي لخبر أبي داود وغيره قالوا: أنتداوى؟ فقال: تداووا ، فإن اللہ لم يضع داء إلا وضع له دواء غير الهرم،وأنه لا ينافي التوكل إذ فيه مباشرة الأسباب مع شهود خالقها ; ولأنه صلی اللہ علیہ وسلم فعله، وهو سيد المتوكلين

ترجمہ: علاج کروانا سنت ہے، کیونکہ ابو داؤد وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا:کیا ہم علاج کیا کریں؟ تو آپ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نے فرمایا:علاج کیا کرو کہ بیشک اللہ تعالی نے بڑھاپے کے علاوہ کوئی بیماری ایسی نہیں اتاری کہ جس کے لیے دوا، نہ بنائی ہو اور علاج کرنا توکُّل کے خلاف بھی نہیں ہے، اس لیے کہ علاج کروانے میں خالق پر نظر رکھتے ہوئے، اسباب کو استعمال کرنا ہوتا ہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نے بھی علاج کیا، حالانکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام تمام توکُّل کرنے والوں کے سردار ہیں۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 4، صفحہ 45، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

علاج کروانے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں امامِ اہلِ سُنَّت ، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) نے ارشاد فرمایا: ”سُنَّت ہے۔۔۔ اَنبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی عادتِ کریمہ اکثریہی رہی ہے کہ ان کی اُمَّت کے لیے سُنَّت ہو۔“(ملفوظاتِ اعلی حضرت،صفحہ 365، مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ)

جب بندے کا اعتقاد اللہ تعالی کی ذات پر ہو ، تو علاج کروانے میں کوئی حرج نہیں، چنانچہ علامہ زَیْلَعی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 743 ھ/1342ء) لکھتےہیں:

و لا جناح على من تداوى اذا كان يرى أن الشافی هو اللہ دون الدواء، وان الدواء جعله سببا لذلك و المعافی فی الحقيقة هو اللہ تعالى

ترجمہ: علاج کروانے والے شخص پر کوئی گناہ نہیں ، جبکہ وہ یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ شفا دینے والا اللہ تعالی ہے نہ کہ دوائی اور یہ (اعتقاد رکھتا ہو ) کہ دوائی کو اللہ تعالی نے شفا کا ایک سبب بنایا ہے اور حقیقت میں عافیت دینے والا اللہ تعالی ہی ہے۔(تبیین الحقائق، جلد 6، کتاب الکراھیۃ ، صفحہ 32، مطبوعہ المطبعة الكبرى الاميرية، بولاق)

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:”دوا علاج کرنا جائز ہے، جبکہ یہ اعتقاد ہو کہ شافی اللہ (عزوجل)ہے، اس نے دوا کو ازالہ مرض کے لیے سبب بنادیا ہے۔“(بھار شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 505، مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9508

تاریخ اجراء: 16ربیع الاول 1447ھ/10ستمبر 2025ء