مرض الموت سے گناہ معاف ہوتے ہیں؟

کیا مرض الموت سے خطائیں معاف ہوتی ہیں؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلےکےبارےمیں کہ ہمارے علاقے میں جب کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے ،تو رشتہ دار یا اہل محلہ کھانا بناتے ہیں اور جنازے کے بعد اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ کھانا کھا کر جائیے گا۔براہ کرم اس کا حکم ارشاد فرمادیں؟دسویں چالیسویں وغیرہ کے کھانے کا کیا حکم ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جی ہاں! یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ بیماری، مسلمان کے لیےاللہ تعالی کی رحمت ہے (جبکہ وہ اس پر صبر کرے اور راضی برضائے الہی رہے) کہ اس کی وجہ سے اس کی خطائیں معاف کی جاتی ہیں۔ یونہی مرض الموت (یعنی وہ مرض جس میں انسان کی موت واقع ہو جائے، وہ) بھی اﷲ پاک کی رَحمت ہے کہ اِس کی برکت سے اﷲ پاک گناہ معاف کرتا ہے۔ نیز بندہ توبہ وغیرہ کرکے پاک و صاف ہو جاتا ہے۔

موطا امام مالک میں ہے

عن يحيى بن سعيد، إن رجلا جاءه الموت في زمان رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم فقال رجل: هنيئا له، مات و لم يبتل بمرض، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم: و يحك و ما يدريك، لو أن اللہ ابتلاه بمرض یكفر به من سيئاته

ترجمہ: یحیی بن سعید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ و اٰلہٖ و سلم کے زمانے(یعنی ظاہری حیات مبارکہ)میں ایک صاحب فوت ہوئے تو کسی نے کہا: "اُسے مبارک ہو کہ وہ کسی مرض میں مبتلا ہوئے بغیر فوت ہو گیا۔" اس پر نبیِ کریم صلی اللہ تعالی علیہ و اٰلہٖ و سلم نے اِرشاد فرمایا: تم پر افسوس ہے! تمہیں کیا خبر؟ اگر اللہ پاک اُسے کسی مرض میں مبتلا فرماتا تو اِس کے سبب اس کے گُناہ مِٹادیتا۔ (موطا مالک، باب ماجاء فی اجر المریض، جلد 2، صفحہ 942، دار احیاء التراث، بیروت)

اس حدیث پاک کی شرح کے متعلق مرآۃ المناجیح میں ہے: ”یہ قائل (یعنی مبارکباد دینے والے) سمجھتے تھے کہ بیماریاں رَب کی پکڑ ہیں اور تندرست رہنا اُس کی رحمت۔۔۔ اِس لیے بطور مبارکباد یہ عرض کیا، اِسی خیال پر حضور صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلم نےناراضی کا اظہار کیا۔ یعنی مومن کی بیماری خصوصاً بیماری موت (یعنی وہ مرض جس میں انسان کی موت واقع ہو جائے، وہ) بھی اﷲ پاک کی رَحمت ہے کہ اِس کی برکت سے اﷲ پاک گناہ معاف کرتا ہے۔ نیز بندہ توبہ وغیرہ کرکے پاک و صاف ہو جاتا ہے، لہٰذا بیمار ہو کر مرنا بہتر۔“ (مراٰۃ المناجیح، جلد 02، صفحہ 427، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4138

تاریخ اجراء: 23 صفر المظفر 1447ھ / 18 اگست 2025ء