دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
مہندی کی رسم پر جانے کا کیا حکم ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگر مہندی کی رسم صرف اس حد تک ہو کہ دلہن کو خاندان کی عورتیں شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے مہندی لگائیں، اور اس میں کوئی خلافِ شرع کام مثلاً موسیقی، غیر مردوں و عورتوں کا اختلاط وغیرہ نہ ہو، تو شرعی تقاضوں کو پور ا کرتے ہوئے اس میں شرکت کر سکتے ہیں۔ البتہ! اگر مہندی کی رسم میں بے پردگی، موسیقی، رقص، نامحرم مردوں و عورتوں کا اختلاط یا کوئی بھی خلافِ شرع پہلو پایا جائے تو ایسی محفل میں شرکت کی اجازت نہیں۔
بہار شریعت میں ہے "شادیوں میں طرح طرح کی رسمیں برتی جاتی ہيں، ہر ملک میں نئی رسوم ہر قوم و خاندان کے رواج اور طریقے جداگانہ، جو رسمیں ہمارے ملک میں جاری ہیں ان میں بعض کا ذکر کیا جاتا ہے۔ رسوم کی بنا عرف پر ہے یہ کوئی نہیں سمجھتا کہ شرعاً واجب یا سنت یا مستحب ہیں لہٰذا جب تک کسی رسم کی ممانعت شریعت سے ثابت نہ ہو اُس وقت تک اُسے حرام و ناجائز نہیں کہہ سکتے کھینچ تان کر ممنوع قرار دینا زیادتی ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ رسوم کی پابندی اسی حد تک کر سکتا ہے کہ کسی فعل حرام میں مبتلا نہ ہو ۔۔۔ اکثر جاہلوں میں رواج ہے کہ محلہ یا رشتہ کی عورتیں جمع ہوتی ہیں اور گاتی بجاتی ہیں یہ حرام ہے کہ اولاً ڈھول بجانا ہی حرام پھر عورتوں کا گانا مزید براں عورت کی آواز نامحرموں کو پہنچنا اور وہ بھی گانے کی اور وہ بھی عشق و ہجر و وصال کے اشعار یا گیت۔ جو عورتیں اپنے گھروں میں چِلّا کر بات کرنا پسند نہیں کرتیں گھر سے باہر آواز جانے کو معیوب جانتی ہیں ایسے موقعوں پر وہ بھی شریک ہو جاتی ہیں گویا ان کے نزدیک گانا کوئی عیب ہی نہیں کتنی ہی دُور تک آواز جائے کوئی حرج نہیں نیز ایسے گانے میں جوان جوان کوآری لڑکیاں بھی ہوتی ہیں ان کا ایسے اشعار پڑھنا یا سننا کس حد تک ان کے دبے ہوئے جوش کو ابھارے گا اور کیسے کیسے ولولے پیدا کریگا اور اخلاق و عادات پر اس کا کہاں تک اثر پڑے گا۔ یہ باتیں ایسی نہیں جن کے سمجھانے کی ضرورت ہو ثبوت پیش کرنے کی حاجت ہو۔۔۔ پھر جوانوں اور کنواریوں کی اس میں شرکت اور نامحرم کے سامنے جانے کی جرأت کس قدر حماقت ہے۔"(بہار شریعت، ج 2، حصہ 7، ص 104، 105، مکتبۃ المدینہ)
بہار شریعت میں ہے "دعوت میں جانا اس وقت سنت ہے، جب معلوم ہو کہ وہاں گانا بجانا، لہو و لعب نہیں ہے اور اگر معلوم ہے کہ یہ خُرافات وہاں ہیں، تو نہ جائے۔" (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 392، مکتبۃ المدینہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4486
تاریخ اجراء: 07 جمادی الاخریٰ 1447ھ / 29 نومبر 2025ء