کیا عورت میکے سے چاقو قینچی اور سوئی وغیرہ لا سکتی ہے؟

عورت کا میکے سے چاقو، قینچی اور سوئی وغیرہ لانا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا بیٹی میکے سے چاقو، قینچی، تالا، سوئی وغیرہ لے جا سکتی ہے؟ ان سب چیزوں کے لے جانے سے میکے اور سسرال میں کوئی مسئلہ تو نہیں آتا؟ رہنمائی فرمائیے۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جی ہاں! بیٹی اپنے میکے سے چاقو، قینچی، تالا، سوئی وغیرہ جیسی روزمرہ استعمال کی چیزیں لے جا سکتی ہے۔ اسلام میں ان اشیا کے لے جانے پر کوئی ممانعت نہیں ہے۔ یہ صرف عام گھریلو استعمال کی چیزیں ہیں، جنہیں اپنی ضرورت کے لیے ساتھ لے جانا بالکل جائز ہے۔ بعض لوگ ان چیزوں کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ چاقو یا قینچی ساتھ لے جانے سے رشتہ میں کاٹ یا جدائی آتی ہے، تالا لے جانا بندش یا رکاوٹ کا سبب بنتا ہے، سوئی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ جھگڑے یا الجھنیں پیدا ہوتی ہیں، یہ سب توہمات ہیں، ان سے بدشگونی لینا اور انہیں کسی تکلیف و مصیبت کی علامت سمجھنا بالکل غلط ہے، جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں، کسی چیز سے بد شگونی لینا مسلمانوں کا طریقہ نہیں بلکہ غیر مسلموں کا شیوہ ہے۔ لہذا اللہ تعالی پرتوکل اوربھروسہ رکھیں اور بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ اچھائی برائی، غمی خوشی، اسی طرح کسی کام کا سنورنابگڑنا، الغرض کوئی کام بھی اللہ رب العالمین کی مشیت کے بغیرممکن نہیں۔ البتہ! اگر سسرال یا خاندان میں ان چیزوں کو لے جانے پر کوئی غلط فہمی ہو، تو بہتر ہے کہ نرمی اور دانائی سے بات سمجھائی جائے، یا وقتی طور پر ان چیزوں کو نہ لے جایا جائے، تاکہ بلاوجہ اختلاف نہ ہو۔

قرآن پاک میں اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے:

﴿قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَ بِمَنْ مَّعَكَؕ- قَالَ طٰٓىٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ﴾

ترجمہ کنز الایمان: بولے ہم نے برا شگون لیا تم سے اور تمہارے ساتھیوں سے فرمایا تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہےبلکہ تم لوگ فتنے میں پڑے ہو۔ (القرآن، سورۃ النمل، پارہ 19، آیت: 47)

مذکورہ آیت کےتحت تفسیر صراط الجنان میں ہے ”یاد رہے کہ بندے کو پہنچنے والی مصیبتیں اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہیں۔۔۔ اور مصیبتیں آنے کا عمومی سبب بندے کے اپنے برے اعمال ہیں، جیسا کہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ﴾

ترجمہ کنزُالعِرفان: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔ اور جب ایسا ہے تو کسی چیز سے بد شگونی لینا اور اپنے اوپر آنے والی مصیبت کو اس کی نحوست جاننا درست نہیں اور کسی مسلمان کو تو یہ بات زیب ہی نہیں دیتی کہ وہ کسی چیز سے بد شگونی لے کیونکہ یہ تو مشرکوں کا ساکام ہے جیساکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے تین بار ارشاد فرمایا کہ بد شگونی شرک (یعنی مشرکوں کا سا کام) ہے اور ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں، اللہ تعالٰی اسےتوکّل کے ذریعے دور کر دیتا ہے۔“ (تفسیر صراط الجنان، جلد 7، صفحہ 211، 212،مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

حدیث پاک میں ہے

ثلاث لم تسلم منها هذه الأمة: الحسد و الظن و الطيرة، ألا أنبئكم بالمخرج منها! إذا ظننت فلا تحقق، و إذا حسدت فلا تتبع، و إذا تطيرت فامض

ترجمہ: تین خصلتیں اس امت سے نہ چھوٹیں گی، حسد، بدگمانی اور بدشگونی، کیامیں تمہیں ان کا علاج نہ بتادوں، جب بد گمانی آئے تو اس پر کاربند نہ ہو اور جب حسد کرے تو اس کی اتباع نہ کراور بدشگونی کے باعث کام سے نہ رک۔ (کنز العمال، جلد 16، صفحہ 27، 28، رقم الحدیث: 43789، مؤسسة الرسالة)

شیخِ محقق عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ”برا شگون لینے کا فائدہ حاصل کرنے اور نقصان کے دور کرنے میں کچھ دخل نہیں ہے، اس کا عقیدہ نہیں رکھنا چاہیے اور اس کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے جو کچھ ہونے والا ہے، ہو کر رہے گا۔ شارع علیہ السلام نے اس کا اعتبار نہیں کیا اور اسے دخل نہیں دیا۔‘‘ (اشعۃ اللمعات مترجم، جلد 5، صفحہ 755، فرید بک سٹال، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4103

تاریخ اجراء: 12 صفر المظفر 1447ھ / 07 اگست 2025ء