انسان کو نجات دلانے کیلئے کون سے اعمال کافی ہیں؟

انسان کی نجات کے لئے کافی اعمال

دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

اگر کوئی مسلمان نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ ادا کرتا ہے، باقی ٹائم جاب کرتا ہے، پھر گھر آتا ہے اور فیملی کے ساتھ ٹائم گزارتا ہے، یا سوتا ہے، اس کی نماز کے علاوہ کوئی خاص عبادت نہیں ہے، گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، تو یہ اس کے لئے کافی ہوگا یا اس کو کچھ اور بھی کام کرنے ہوں گے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عقائدکی درستی کے ساتھ ساتھ تمام احکامات (جیسےفرائض وواجبات اورسنن موکدہ ، تمام حقوق وغیرہ) ادا کرنا، اورتمام ممنوعات (جیسے حرام و گناہ والے کاموں) سے بچنا، انسان کی نجات کے لئے کافی ہے(ان شاء اللہ عزوجل)۔

البتہ!نوافل کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا، یہاں تک کہ بروز قیامت فرائض کی کمی، نوافل سے پوری کی جائے گی اوریہ مزید قرب خداوندی حاصل ہونے کا ذریعہ ہیں، لہذا اوپر مذکور معاملات کے ساتھ ساتھ حتی الامکان، اپنی استطاعت کے مطابق نفل کاموں کی بھی ادائیگی کرنی چاہیے، خواہ نفلی نماز ہو، نفلی روزہ ہو یا نفلی صدقہ، تلاوت، درودپاک و تسبیحات، غریبوں کی ہمدردی اوران کی مدد وغیرہ۔

حدیث پاک میں اسی طرح کے سوال کے جواب میں نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے جہاں عقیدہ و فرائض کا ذکر فرمایا، جوکہ سوال کا جواب تھا، وہاں ساتھ میں نفلی کاموں کا بھی ذکر فرمایا اور آخر میں ان امور پر معاونت کے لیے زبان کو قابو میں رکھنے کا فرمایا۔

سنن ترمذی میں ہے

"عن معاذ بن جبل، قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فأصبحت يوما قريبا منه ونحن نسير، فقلت: يا رسول الله أخبرني بعمل يدخلني الجنة ويباعدني عن النار، قال: «لقد سألتني عن عظيم، وإنه ليسير على من يسره الله عليه، تعبد الله ولا تشرك به شيئا، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحج البيت» ثم قال: " ألا أدلك على أبواب الخير: الصوم جنة، والصدقة تطفئ الخطيئة كما يطفئ الماء النار، وصلاة الرجل من جوف الليل "۔۔۔۔ثم قال: «ألا أخبرك برأس الأمر كله وعموده، وذروة سنامه»؟ قلت: بلى يا رسول الله، قال: «رأس الأمر الإسلام، وعموده الصلاة، وذروة سنامه الجهاد»ثم قال: «ألا أخبرك بملاك ذلك كله»؟ قلت: بلى يا نبي الله، فأخذ بلسانه قال: «كف عليك هذا»، فقلت: يا نبي الله، وإنا لمؤاخذون بما نتكلم به؟ فقال: «ثكلتك أمك يا معاذ، وهل يكب الناس في النار على وجوههم أو على مناخرهم إلا حصائد ألسنتهم»: «هذا حديث حسن صحيح»"

ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں: میں ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا، تو میں ایک دن آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے قریب ہوا اس حال میں کہ ہم چل رہے تھے، پس میں نےعرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم!مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتائیں، جو مجھے جنت میں داخل کردے اور جہنم سے دور کردے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: تم نے مجھ سے ایک بڑی بات کے متعلق سوال کیا ہے اور بے شک یہ اس شخص پر آسان ہے، جس پر اللہ تعالی اسے آسان کردے۔ تم اللہ تعالی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔ پھر ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ابواب خیر نہ بتاؤں، روزہ ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں کو ایسے مٹاتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور درمیانی رات میں آدمی کا نماز پڑھنا۔پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں تمام امورکی بنیاد، اور اس کا ستون اور اس کے کوہان کی بلندی نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کی: کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم! آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا: تمام امور کی بنیاد اسلام ہے اور اس کا ستون نماز اور اس کے کوہان کی بلندی جہاد ہے۔ پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں ان سب امور پر معاونت کرنے والی چیز کی خبر نہ دوں؟ میں نے عرض کی: کیوں نہیں یا نبی اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم! پس آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا: اسے روک کر رکھو۔ میں نے عرض کی: یا نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم! کیا جو باتیں ہم کرتے ہیں، ان پر بھی ہماری پکڑ ہوگی؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں تمہاری ماں روئے، اے معاذ! لوگوں کو اوندھے منہ یا اوندھے ناک آگ میں نہیں گرائے گی مگر ان کی زبانوں کی کٹوتیاں(یعنی گفتگو)۔"یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر2616، صفحہ966-967، مطبوعہ دار ابن کثیر، بیروت)

اس کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے

"(لقد سألت) أي مني (عن عظيم) أي شيء عظيم، أو سؤال عظيم۔۔۔؛ لأن الدخول والتباعد أمر عظيم، فسببه الذي هو اجتناب كل محظور وامتثال كل مأمور أيضا كذلك"

 ترجمہ: بیشک ضرور تم نے مجھ سے ایک عظیم چیز کے متعلق سوال کیا ہے یا عظیم سوال کیا ہے، کیونکہ جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات، ایک عظیم معاملہ ہے تو اس کا جوسبب ہے یعنی تمام ممنوعات سے اجتناب اور تمام مامورات پر عمل یہ بھی اسی طرح عظیم ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الایمان، ج01، ص104، دارالفکر، بیروت، لبنان)

صحیح بخاری میں ہے

” عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن أعرابيا أتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: دلني على عمل إذا عملته دخلت الجنة، قال: «تعبد الله لا تشرك به شيئا، وتقيم الصلاة المكتوبة، وتؤدي الزكاة المفروضة، وتصوم رمضان» قال: والذي نفسي بيده لا أزيد على هذا، فلما ولى، قال النبي صلى الله عليه وسلم: «من سره أن ينظر إلى رجل من أهل الجنة، فلينظر إلى هذا»“

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کرنے لگے کہ مجھے ایسے کام کی ہدایت فرمایئے کہ میں وہ کروں تو جنتی ہو جاؤں، تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: کو پوجو اُس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، فرض زکوۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو، وہ بولے قسم اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں اس پر کچھ بڑھاؤں گا نہیں، پھرجب وہ چل دیئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے اس بات سے خوشی حاصل ہو کہ وہ جنتی مرد کو دیکھے تو وہ اسے دیکھ لے۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث 1397، ج 2، ص 105، دار طوق النجاۃ)

سنن الترمذی میں مروی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:

” سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن أول ما يحاسب به العبد يوم القيامة من عمله صلاته، فإن صلحت فقد أفلح وأنجح، وإن فسدت فقد خاب وخسر، فإن انتقص من فريضته شيء، قال الرب عز وجل: انظروا هل لعبدي من تطوع فيكمل بها ما انتقص من الفريضة، ثم يكون سائر عمله على ذلك“

 ترجمہ: میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ بندے کا وہ عمل جس کا قیامت کے دن پہلے حساب ہوگا وہ اس کی نماز ہے، اگر نماز ٹھیک ہوگئی تو بندہ کامیاب ہوگیا اور نجات پاگیا اور اگر نماز بگڑ گئی تو محروم رہ گیا اور نقصان پاگیا، اگر بندے کے فرضوں میں کمی ہوگی تو رب عزوجل فرمائے گا کہ دیکھو کیا میرے بندے کے پاس کچھ نفل ہیں، تو ان سے فرض کی کمی پوری کردی جائے گی، پھر بقیہ اعمال اسی طرح ہوں گے۔ (سنن الترمذی، رقم الحدیث 413، ج 2، ص 269، مطبوعہ مصر)

صحیح بخاری میں ہے:

’’عن ابی ھریرۃ قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: إن الله قال: من عادى لي وليا فقد آذنته بالحرب، وما تقرب إلي عبدي بشيء أحب إلي مما افترضت عليه، وما يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه“

ترجمہ: حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشادفرماتا ہے: جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی میں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ جن چیزوں سے میرا قُرب حاصل کرتا ہے ان میں فرائض سے زیادہ مجھے کوئی شے پسند نہیں اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ سے میرے قریب ہوتا رہتا ہےحتّٰی کہ میں اسے اپنا مَحبوب بنا لیتا ہوں۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث 6502، ج 8، ص 105، دار طوق النجاۃ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4372

تاریخ اجراء: 06جمادی الاول1447 ھ/29اکتوبر2025 ء