نسوار رکھنا جائز ہے؟

کیا نسوار رکھنا جائز ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نسوار رکھنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

نسوار رکھنا فی نفسہ تو جائز ہے جبکہ اس کا ایسا استعمال نہ ہو جو حواس اور دماغ میں فتور لائے یا نشہ پیدا کرے، البتہ اگر کسی کےلئے یا کسی خاص مقدار میں یا کسی وقت میں نسوار صحت کےلئے نقصان دہ ہو تو پھر ممنوع ہوجائے گی۔ البتہ یہ یاد رہے کہ چونکہ نسوار سے منہ میں بدبو ہو جاتی ہے تو اس بدبو کو ختم کیے بغیر ذکر اللہ کرنا بے ادبی و ممنوع ہے، اور ایسی حالت میں مسجد کے اندر داخل ہونا حرام اور نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، پس اگر جماعت کا وقت قریب ہو اور معلوم ہے کہ جماعت کے وقت تک منہ سے بد بو دور نہیں ہو سکے گی تو اس وقت نسوار رکھنا جائز نہیں۔

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”پان کھانا جائز ہے اور اتنا چونا بھی کہ ضرر نہ کرے اور اتنا تمباکو بھی کہ حواس پر اثر نہ آئے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 558، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فقیہِ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1423ھ / 2001ء) لکھتے ہیں: ”جب یہ ثابت ہو گیا کہ جامد چیزیں جب نشہ آور نہ ہوں تو وہ حلال ہیں، اور چونکہ پان تمباکو قلیل نشہ آور نہیں ہوتا، اس لیے اس کا کھانا حرام نہیں ہے۔“ (فتاوی فقیہ ملت، جلد 2، صفحہ 309، شبیر برادرز، لاہور)

خلیل ملت مفتی محمد خلیل خان برکاتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1405ھ / 1985ء) لکھتے ہیں: ”تمباکو کا استعمال جیسا کہ عام طور پر سگریٹ بیڑی نوشی کی صورت میں، اور خاص طور پر حقہ نوشی کی صورت یا پان کے ذریعے مروج ہے، حق یہ ہے کہ شرعاً جائز و مباح ہے، جس کی ممانعت پر شرع مطہرہ سے کوئی دلیل نہیں۔... (البتہ) اگر اس کا استعمال ایسی بے احتیاطی و لا پرواہی سے ہو کہ حواس و دماغ میں فتور لائے یا نشہ پیدا کرے تو پھر اس کا استعمال ممنوع و ناجائز ہے۔“ (فتاوی خلیلیہ، جلد 3، صفحہ 178، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور)

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”منہ میں بدبو ہونے کی حالت میں نماز مکروہ اور ایسی حالت میں مسجد میں جانا حرام ہے، جب تک منہ صاف نہ کر لے، اور دوسرے نمازی کو ایذا پہنچنی حرام ہے اور دوسرا نمازی نہ بھی ہو تو بدبو سے ملائکہ کو ایذا پہنچتی ہے، حدیث میں ہے:

ان الملٰئکۃ تتاذی بمایتاذی بہ بنو ادم

(یعنی بے شک فرشتے اس شے سے اذیت پاتے ہیں جن سے اولادِ آدم اذیت پاتے ہیں)۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 332، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”جو لوگ غیر خوشبو دار تمباکو کھاتے ہیں اور اسے منہ میں دبا رکھنے کے عادی ہیں، ان کا منہ اس کی بدبو سے بس جاتا ہے کہ قریب سے بات کرنے میں دوسرے کو احساس ہوتا ہے، اس طرح تمباکو کھانا، جائز نہیں کہ یہ نماز بھی یوں ہی پڑھے گا اور ایسی حالت سے نماز مکروہ تحریمی ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 555، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ”کچا لہسن پیاز کھانا کہ بلا شبہہ حلال ہے اور اسے کھا کر جب تک بو زائل نہ ہو مسجد میں جانا ممنوع، مگر جو حقہ ایسا کثیف (گاڑھا) و بے اہتمام ہو کہ معاذ اللہ تغیر باقی (دیر پا بد بو) پیدا کرے کہ وقت جماعت تک کلی سے بھی بکلی(مکمل طور پر) زائل نہ ہو تو قربِ جماعت میں اس کا پینا شرعاً ناجائز کہ اب وہ ترکِ جماعت و ترکِ سجدہ یا بدبو کے ساتھ دخول مسجد کا موجب ہوگا، اور یہ دونوں ممنوع و ناجائز ہیں اور ہر مباح فی نفسہ کہ امر ممنوع کی طرف مؤدی ہو ممنوع و نا روا ہے۔ ... تمباکوئے خوردنی کہ اس کا جرم منہ میں دبا رہتا ہے اور مکرر استعمال سے تمام دہن اس کی کیفیت کریہہ سے متکیف ہوتا اور اس کی بو میں بس جاتا ہے تو اس کی کراہت تنزیہی حقہ سے زائد ہے ... اور اکثر کثافت و بے احتیاطی اس حد کو پہنچی کہ رائحہ کریہہ لازم دہن ہو جائے، کلی وغیرہ سے نہ جائے، برابر والے کو ایذا پہنچائے، تو ایسے تمباکو کا استعمال بیشک ناجائز و ممنوع ہے کہ اب وہ خواہی نخواہی ترک جماعت و مسجد کا موجب ہوگا اور یہ حرام ہے، مع ھذا ایسے تغیر کے ساتھ خود نماز پڑھنا، تلاوت قرآن کرنا سوئے ادب و گستاخی ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 25، صفحہ 94-95 ملتقطاً، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-946

تاریخ اجراء: 24 ربيع الآخر 1447ھ/18 اکتوبر 2025ء