نو مسلم کے لیے نام تبدیل کرنے کا حکم

نیو مسلم کے لیے نام تبدیل کرنا ضروری ہے ؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اکثر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرتا ہے، تو اس کا نام تبدیل کردیا جاتا ہے، تو کیا نیو مسلم کے لیے اسلام قبول کرنے کے بعد نام تبدیل کرنا ضروری ہے ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

نام آدمی کی شخصیت کا نہایت اہم حصہ ہوتا ہے جس سے وہ پہچانا اور پکارا جاتا ہے، گھر خاندان اور معاشرے میں نام اس کی شناخت ہوتا ہے اور بہت دفعہ یہی نام انسان کےگھریلو ماحول، مذہب اور تہذیب کی عکاسی بھی کر رہا ہوتاہے۔ دینِ اسلام چونکہ ہر شعبۂ زندگی میں کامل و مکمل رہنمائی عطافرماتاہے، تو ناموں کے حوالے سے بھی اسلام میں بڑی واضح تعلیمات موجود ہیں، احادیث طیبہ میں اچھے نام رکھنے کی ترغیبات اور بُرے ناموں کی ممانعت کے واضح ارشادات موجود ہیں، انہی تعلیمات میں سے یہ ہےکہ مسلمان ایسا نام نہ رکھے، جو قرآن و حدیث میں بیان نہ کیا گیا ہو، یا مسلمانوں میں رائج نہ ہو، نہ ہی وہ نام رکھے جو غیر مسلموں کے ساتھ خاص ہو، کیونکہ اس میں کفار کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا پایا جاتا ہےاور مسلمان کو غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنا منع ہے، نیز ایسا نام جو معاذ اللہ! کفار کے ساتھ خاص ہویا جس میں کفریہ معنی پایا جاتا ہو، مسلمان کو رکھنے کی اجازت نہیں اور اگر پہلے سے کسی نے رکھ لیا ہو، تو اُس پر اسے تبدیل کرنا لازم ہے۔

اس تفصیل کے بعد پوچھی گئی صورت کی ممکنہ طور پر تین صورتیں ہو سکتی ہیں: (1)اگر نیو مسلم کا ایسا نام جو خاص غیر مسلموں کا شعار ہو اور اِنہی کے ساتھ خاص ہو، تو ایسا نام تبدیل کرنا ضروری ہےکہ مسلمان کو ایسا نام رکھنا شرعاً جائز نہیں۔ (2) وہ نام کفار کے ساتھ خاص تو نہ ہو، مگر اس کے معنی بُرے ہوں، اچھے نہ ہوں، تو اسے بھی تبدیل کر دینا چاہیے، کیونکہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایسے ناموں کو تبدیل فرما دیا کرتےتھے، (جیساکہ تفصیلی احادیث نیچی آرہی ہیں)۔ (3) وہ نام نہ غیر مسلوں کے ساتھ خاص ہواور نہ ہی اس کے معنی میں کوئی خرابی ہو اور مسلمانوں میں رائج بھی ہو، تو ایسا نام بدلنا ضروری نہیں۔

یاد رہے! کسی غیرمسلم کا مسلمان ہونا اس کے نام بدلنے پر موقوف نہیں ہے، اگر کوئی شخص سچے دل سے اسلام قبول کرلے، نیز کفر و شرک کی چیزوں سے براء ت کا اظہار کردے، تو شرعاً وہ”مسلمان“ ہے، اگرچہ اس نے اپنا نام نہ بدلا ہو۔

احادیث طیبہ میں اچھے نام رکھنے کی ترغیب ارشاد فرمائی گئی، جیساکہ سنن ابو داؤد، سنن دارمی، سنن کبری للبیہقی، صحیح ابن حبان، وغیرہا کتب احادیث کی میں ایک حدیث پاک میں یوں ارشا د فرمایا:

’’عن أبي الدرداء، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: إنكم تدعون یوم القيامة بأسمائكم وأسماء آبائكم، فاحسنوا أسماءكم‘‘

 ترجمہ: حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بے شک بروزِ قیامت تم اپنے اور اپنے والدوں کے نام سے پکارے جاؤگے، لہٰذا اپنے اچھے نام رکھو۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی تغییر الاسماء، جلد2، صفحہ334، مطبوعہ لاھور)

اسی طرح نبی کریم نے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرمایا:

’’أول ما ینحل الرجل ولده اسمه فليحسن أسمه‘‘

 ترجمہ: آدمی اپنے بچے کو سب سے پہلا تحفہ اس کے نام کا دیتا ہے، لہٰذا اسے چاہیے اس کا اچھا نام رکھے۔ (كنز العمال، حرف النون، الباب السابع، جلد16، صفحہ 423، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)

اسی مفہوم کی ایک حدیث پاک کے تحت مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1391ھ /1971ء ) لکھتےہیں: اچھے نام کا اثر نام والے پر پڑتا ہے، اچھا نام وہ ہے جو بے معنی نہ ہو، جیسے بدھوا، تلوا، وغیرہ اور فخر و تکبر نہ پایاجائے، جیسے بادشاہ، شہنشاہ وغیرہ اور نہ بُرے معنی ہوں جیسےعاصی وغیرہ۔ بہتر یہ ہے کہ انبیائےکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام یاحضور عَلَیْہِ السَّلَام کےصحابہ عظام، اہلبیتِ اطہار رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کے ناموں پر نام رکھے، جیسے ابراہیم و اسمعیل، عثمان، علی، حسین و حسن وغیرہ عورتوں کے نام آسیہ، فاطمہ، عائشہ وغیرہ۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد5، صفحہ30، مطبوعہ ضیاء القرآن، پبلی کیشنز، لاھور)

نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بُرے ناموں کو تبدیل فرما دیاکرتے تھے، جیساکہ سنن ترمذی میں ہے:

’’عن عائشة، أن النبي صلى اللہ عليه وسلم کان یغیرالاسم القبيح

ترجمہ: حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ برے نام تبدیل فرما دیا کرتے تھے۔ ( سنن الترمذی، کتاب الادب، باب في تغییر الاسماء، جلد2، صفحہ572، مطبوعہ لاھور)

ایسا نام جو خاص کفار رکھتے ہوں یاان کی علامت اور پہچان ہو، مسلمان کو رکھنا جائز نہیں، لہٰذا اسے تبدیل کرنا ضروری ہے، چنانچہ علامہ ابو عمر یوسف بن عبد اللہ قرطبی الاستیعاب میں، علامہ عزالدین ابن اثیر جزری اسد الغابہ میں اور علامہ ابن حجر عسقلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ میں لکھتے ہیں، حضرت عبد العزیز بن بدر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ و اٰلِہٖ و سَلَّم کی خدمت میں اپنی قوم کے ساتھ حاضر ہوئے، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:

’’ما اسمك؟قال: عبد العزى، فغير علیہ السلام اسمه، وسماه عبد العزیز‘‘

 ترجمہ: تمہارا نام کیا ہے؟عرض کی: عبدُ الْعُزّی(عزی کفار کے بت کانامکا بندہ)۔ نبی پاک صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ و اٰلِہٖ و سَلَّم نے آپ کا نام بدل کر عبدُ الْعَزِیْز (غالب وطاقتور کا بندہ)رکھ دیا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، جلد3، صفحہ 1006، مطبوعہ دار الجيل، بيروت)

علامہ طَحْطاوی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1231ھ/1815ء) لکھتے ہیں:

’’قسم یختص بالکفار…کجرجس وپطرس ویوحنا، …فھذا لایجوز للمسلمین التسمی بہ لما فیہ من المشابھۃ‘‘ ملخصاً

ترجمہ: ناموں کی ایک قسم کفار کے ساتھ خاص ہے، جیسے جرجس، پطرس اوریوحنا، وغیرہ، لہٰذا اس قسم کے نام مسلمانوں کے لیے رکھنا جائز نہیں، کیونکہ اس میں کفار سے مشابہت پائی جاتی ہے۔ ( حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار، ملخصاً، جلد 2، صفحہ473، مطبوعہ کوئٹہ   )

اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: دسوندی نام کفّار ہنود سے ماخوذ ہےاور مسلمان کو ممانعت ہے کہ کافروں کے نام رکھے، ’’کما صرحوا بہ فی التسمی بیوحنا، وغیرہ‘‘ (جیسا کہ یوحنا نام رکھنے کے متعلق فقہاء نے تصریح فرمائی ہے)۔  ‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد23، صفحہ260، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

ایک اَور مقام پر امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سےسوال ہوا کہ: ’’بکرنے اپنی اولاد کے نام تین زبانوں میں رکھ چھوڑے ہیں، عربی انگریزی، ہندی، ایک لڑکے کامطیع الاسلام ہے، دوسرے کاپالس، لڑکی کا نام کنول دیوی، جواس سے کہاجاتا ہے، تو کہتا ہے کہ زبان کا فرق ہے، مگر بُرے نہیں،“ تو آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِنےجواباً ارشاد فرمایا: یہ اس کافعل شیطانی شیطانی حرکت ہے۔

قال ﷲ تعالیٰ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾

(یعنی)اے ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (القرآن الکریم، 2/208) “ (فتاویٰ رضویہ، جلد24، صفحہ663، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

شریعت کی نظر میں کونسا نام بُرا ہے، اس حوالے سے اُصول بیان کرتے ہوئے علامہ ابوالمَعَالی بخاری حنفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 616ھ /1219ء) لکھتےہیں:

 التسميةباسم لم يذكره اللہ تعالى في كتابه ولا ذكره رسول اللہ عليه السلام، ولا استعمله المسلمون تكلموا فيه، والأولى أن لا تفعل

ترجمہ:  ایسانام رکھنا جس کا ذکر نہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن کریم میں کیا ہو، نہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (احادیث میں ) کیا ہو اور نہ ہی مسلمانوں میں ایسانام مستعمل ہو، تواس میں علماء کا اختلاف ہے  اور بہتریہ ہے کہ نہ رکھے۔ (المحیط البرھانی، کتاب الاستحسان، جلد5، صفحہ382، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

یونہی فتاوی عالمگیری، فتاوی شامی اور بریقہ محمودیہ شرح طریقہ محمدیہ میں ہے۔

 اسی طرح اوپر مراٰۃ المناجیح کے جزئیہ میں بیان ہوا  کہ جو نام بے معنی ہو، جس میں فخر و تکبر پایا جاتا ہو اور جس کے معنی بُرے ہوں، وہ نام رکھنا بھی بُرا ہے۔

وہ بعض نام جو نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تبدیل فرمائے، صحیح مسلم، سنن ترمذی اور دیگر کتب احادیث میں ہے:

’’عن ابن عمرأن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم غیراسم عاصیۃ، وقال أنت جميلة

ترجمہ: حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عاصیہ نام تبدیل کیا اور فرمایا:  تم (تمہارا نام ) جمیلہ ہو۔ ( سنن الترمذی، کتاب الادب، جلد2، صفحہ572، مطبوعہ لاھور)

اس حدیث پاک کے تحت علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1014ھ /1605ء) لکھتےہیں:

قال النووي:  وفيه استحباب تغییر الاسم القبيح، كما يستحب تغيير الأسامي المكروهة إلى حسن

ترجمہ: امام نووی رَحِمہ اللہُ تَعَالیٰ نےفرمایا: اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ برے نام کو بدلنا مستحب ہے، جیساکہ ناپسندیدہ ناموں کو اچھے ناموں میں تبدیل کرنا مستحب ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، باب الاسامي، جلد79، صفحہ16، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

سنن ابوداؤد میں ہے:

 قال أبو داود: وغيّر النبي صلى اللہ عليه وسلم اسم العاص وعزيز وعتلة وشيطان والحكم وغرإب وحباب، وشهاب فسماه هشاما، وسمى حربا: سلما، وسمى المضطجع المنبعث، وأرضا تسمى عفرة سماها خضرة وشعب الضلالة سماه شعب الهدى، وبنو الزنية سماهم بني الرشدة، وسمى بني مغوية بني رشدة‘

 ترجمہ: عظیم محدِّث امام ابوداودر َحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ و اٰلِہٖ و سَلَّم نےعَاص (گنہگار)، عَزِیْز(غالب، طاقتور)، عَتَلَۃ(شدت اور سختی)، شیطان (ہلاک ہونے والا، بھلائی سے دور)، حَکَم (دائمی حکومت والا)، غُرَاب(کوا، دور نکل جانے والا) اور حُبَاب(شیطان کا نام، سانپ کی ایک قسم)کے نام تبدیل فرما دئیے اورشِہَاب(آگ کا شعلہ) کا نام ھِشَام(سخاوت)، حَرْب(جنگ)کا نام سَلْم (صلح) اور مُضْطَجِع(لیٹنے والا) کانام مُنْبَعِث (اٹھنے والا)رکھا۔ (سنن ابی داوٗد، کتاب الادب، جلد2، صفحہ 335، مطبوعہ لاھور)

اس کے تحت شیخِ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی حنفی بخاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات: 1052ھ) لکھتےہیں:

’’فكره التسمية بهذه الأسماء‘‘

 ترجمہ: پس ان ناموں میں سے کوئی نام رکھنا مکروہ ہے۔ (لمعات التنقیح، باب الاسامی، جلد8، صفحہ 109، مطبوعہ دار النوادر، دمشق)

ان سب جزئیات سے واضح ہوا کہ ایسا نام جس میں کفار سے مشابہت نہ بھی ہو، مگر وہ اچھا نہ ہو، تو اسے بھی بدل دینا چاہیے، جیساکہ نبی پاک صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ و اٰلِہٖ و سَلَّم نے تبدیل کر دئیےتھے، البتہ ایسا نام جو مسلمان اور غیر مسلموں میں مشترک ہو، اسے تبدیل کرنا ضروری نہیں ہے، جیساکہ: یحیی، عیسی، سلیمان، وغیرہا، لہٰذا اگر کسی غیر مسلم کا ایسا نام ہو، تو اسلام قبول کرنے کے بعد اسے تبدیل کرنا ضروری نہیں، کیونکہ یہ دونوں کو رکھنا جائز ہے، چنانچہ ناموں کے حوالے سے تقسیم کاری بیان کرتے ہوئے علامہ طَحْطاوی حنفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:

’’قسم یختص بالمسلمین وقسم یختص بالکفار وقسم مشترک۔ ۔ ۔  والثالث:  کیحیی و عیسی و ایوب و داود و سلیمان و زید و عمرو و عبد اللہ و عطیۃ و سلام، ونحوھا، فھذا لایمنع منہ المسلمون ولا اھل الذمۃ‘‘

 ترجمہ: ناموں کی ایک قسم مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے، ایک قسم کفار کے ساتھ خاص ہے اور ایک قسم دونوں میں مشترک ہے۔ ۔ ۔  یہ تیسری قسم کے نام، مثلاً یحیی، عیسی، ایوب، داود، سلیمان، زید، عَمرو، عبد اللہ، عطیہ، سلام اور ان جیسے دیگر نام، تو (ان کا حکم یہ ہےکہ ) یہ نام رکھنے سے نہ مسلمانوں کو روکا جائے گا اور نہ ہی غیر مسلموں کو۔ ( حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار، ملخصاً، جلد 2، صفحہ473مطبوعہ کوئٹہ   )

اسی مقام پر علامہ طَحْطاوی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ذکر کیا کہ وہ اسلامی نام جو مسلمانوں کے ساتھ خاص ہوں وہ غیر مسلم کورکھنے کی اجازت نہیں، جیساکہ محمد، احمد، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے نام، مگر غیر مسلم نے رکھ لیا اور بعد میں اسلام قبول کر لیا، تو اب وہ نام جو اسے پہلے رکھنے کی اجازت نہیں تھی، اب رکھنے کی اجازت ہو گئی، لہٰذا اسے بھی تبدیل کرنے کی حاجت نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Fsd-9030

تاریخ اجراء: 01 صفر المظفر 1446ھ/07 اگست  2024ء