دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر رکھوالی کیلئے پالتو کتا، یا بلی کسی جگہ پر ہوں اور وہ مرغیاں کبوتر وغیرہ پکڑ کر کھا جاتے ہوں، تو کیا ان کا ایک پاؤں کاٹ سکتے ہیں، تاکہ وہ دوسرے جانوروں، پرندوں کو نقصان نہ پہنچا سکے؟ کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
شریعت مطہرہ نے جہاں انسان کے جان و مال کی حفاظت کی ہے اور اُس سے نقصان کو دور کیا ہے،وہیں بے زبان جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا ہے اور اُنہیں بلاوجہ تکلیف پہنچانے سے بھی منع کیا ہے، یہ توازن و اعتدال مذہبِ اسلام کی خوبصورتی ہے۔ بہرحال یہی وجہ ہے کہ کاٹنے والا کتا، یا ایسی بلی جو دوسرے جانور وں جیسے کبوتر، مرغی وغیرہ کو کھا جاتی ہو، یا نقصان پہنچاتی ہو، تو اسلام میں اُنہیں قتل کرنے کی اجازت ہے، (جس کا طریقہ یہ ہوگا کہ اُسےتیز چھری کے ساتھ ذبح کر دیا جائے گا اور کم سے کم تکلیف دی جائے گی) لیکن اس کی وجہ سے اُنہیں زندہ رکھ کر اُن کا کوئی عضو کاٹ دینے، یا کوئی دوسری تکلیف و اذیت پہنچانے کی ہرگز اجازت نہیں دی، بلکہ احادیث مبارکہ سے واضح طور پر انسان، زندہ جانور بلکہ خاص کاٹنے والے کتے کو بھی مثلہ کرنے یعنی اس کے اعضا کاٹ دینے کی ممانعت ثابت ہے اور ایسا کرنے والے پر اللہ عزوجل، اس کے فرشتوں، اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور تمام انسانوں کی لعنت کی گئی ہے، لہذا دوسرے جانوروں کو نقصان سے بچانے کی خاطر بھی کتے یا بلی کا ایک پاؤں کاٹ دینا، در حقیقت اُسے مثلہ کرنا اور بغیر کسی صحیح مقصد کے تکلیف پہنچانا ہے، جو کہ ناجائز وگناہ ہے، اس کی ہرگز اجازت نہیں۔
کاٹنے والے کتا اور بلی جو مرغی کبوتر کھاجاتی ہو، انہیں قتل کرنا جائز ہے، لیکن بلا فائدہ تکلیف دینے کی اجازت نہیں، چنانچہ تبیین الحقائق،بحر الرائق،درمختار میں ہے:
و اللفظ للتبیین: وجاز قتل ما يضر من البهائم كالكلب العقور و الهرة إذا كانت تأكل الحمام و الدجاج، لإزالة الضرر، و يذبحها ذبحا، و لا يضر بها لأنه لا يفيد فيكون تعذيبا لها بلا فائدة
ترجمہ: اور نقصان پہنچانے والے جانوروں کا قتل جائز ہے، جیسے کاٹنے والا کتا اور بلی جبکہ وہ کبوتر اور مرغی کھا جاتی ہو، تاکہ ضرر کو دور کیا جائے اور انہیں ذبح کردے اور ان کو نقصان نہ پہنچائے، کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں،تو یہ انہیں بلا فائدہ تکلیف دینا ہے۔ (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، جلد 6، صفحہ 227، مطبوعہ قاھرۃ)
انسان اور جانوروں کو مثلہ کرنے کی ممانعت سے متعلق سنن کبری للبیہقی کی حدیث مبارکہ ہے:
عن علي بن أبي طالب رضي اللہ عنه، قال: كان نبي اللہ صلى اللہ عليه وسلم إذا بعث جيشا من المسلمين إلى المشركين قال: ۔۔۔ و لا تمثلوا بآدمي ولا بهيمة
ترجمہ: حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسلمانوں میں سے کوئی لشکر کفا ر پر بھیجتے،تو فرماتے:۔۔۔ نہ کسی آدمی کو مثلہ کرو اور نہ چوپائے کو۔ (السنن الکبرٰی للبیہقی، جلد 9، صفحہ 154، رقم الحدیث: 18155،دار الكتب العلمية، بيروت)
خاص کاٹنے والے کتے کو مثلہ کرنے کی ممانعت سے متعلق المعجم الکبیر للطبرانی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک ہے:
سمعت رسول ﷲ صلی ﷲ تعالىٰ علیہ و سلم ینھی عن المثلۃ ولو بالکلب العقور
ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مثلہ کرنے سے منع فرماتے سنا، اگر چہ کاٹنے والے کتے کو (یعنی اس کو بھی مثلہ کرنے کی اجازت نہیں)۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، جلد 1، صفحہ 97، رقم الحدیث: 168، مطبوعہ قاھرۃ)
مثلہ کرنے والے پر اللہ عزوجل، اس کے فرشتوں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، اس حوالے سے احادیث ملاحظہ ہوں:
چنانچہ سنن نسائی و سنن کبری للبیہقی ومسند احمد کی حدیث مبارکہ ہے:
عن ابن عمر قال: سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم يقول: «لعن اللہ من مثل بالحيوان»
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو کسی جانور کا مثلہ کرے۔ (سنن نسائی، جلد 7، صفحہ 238، رقم الحدیث: 4442، مكتب المطبوعات الإسلامية، حلب)
لعنت، فعل کے حرام ہونے کی دلیل ہے، چنانچہ مذکورہ حدیث کی شرح میں علامہ عبد الروف مناوی رحمۃ اللہ علیہ فیض القدیر شرح جامع الصغیر میں لکھتے ہیں:
(لعن اللہ من مثل بالحيوان) أي صيره مُثلة بضم فسكون بأن قطع أطرافه أو بعضها و هو حي و في رواية بالبهائم و اللعن دليل التحريم
ترجمہ: یعنی اسے مثلہ کردینا ( لفظِ مثلہ) پہلےحرف کے ضمہ اور دوسرے حرف کے سکون کے ساتھ ہے۔ اس طرح کہ جانور کے اعضایا ان میں سے کچھ کو کاٹ دیا جائے اور وہ زندہ ہو۔ اور ایک روایت میں (حیوان کے بجائے) ’’بہائم‘‘ کے الفاظ ہیں۔اور( کسی فعل پر) لعنت(اس کی) حرمت کی دلیل ہے۔ (فیض القدیر شرح جامع الصغیر، جلد 5، صفحہ 276، مطبوعہ مصر)
مسند احمد کی حدیث مبارک ہے:
عن المنهال بن عمرو، قال: سمعت سعيد بن جبير، قال: مررت مع ابن عمر وابن عباس في طريق من طرق المدينة، فإذا فتية قد نصبوا دجاجة يرمونها، لهم كل خاطئة، قال: فغضب، و قال: من فعل هذا؟ قال: فتفرقوا، فقال ابن عمر: «لعن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم من يمثل بالحيوان»
ترجمہ: منہال بن عمرو سے روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے سنا: کہ میں حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم کے ساتھ مدینہ کے راستوں میں سے ایک راستے پر گزر رہا تھا کہ چند نوجوانوں پر نظر پڑی، انہوں نے ایک مرغی باندھ رکھی تھی اور اس پر نشانہ لگا رہے تھے، اور ہر نشانہ خطا جا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت ابن عمر غضبناک ہوئے اور فرمایا: یہ کس نے کیا ہے؟ تو وہ سب اِدھر اُدھر ہو گئے۔ پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو کسی جانور کا مثلہ کرے۔ (مسند احمد بن حنبل، جلد 9، صفحہ 60، رقم الحدیث: 5018، مؤسسة الرسالة، بیروت)
المعجم الکبیر للطبرانی کی روایت ہے:
عن عبد اللہ بن عمر، قال: سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم يقول: «من مثل بحيوان، فعليه لعنة اللہ و الملائكة و الناس أجمعين»
ترجمہ: جو کسی جاندار کو مثلہ کرے، اس پر اللہ،فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، جلد 13، صفحہ 93، رقم الحدیث: 13733، مطبوعہ بیروت)
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:’’ چوپایوں سے مثلہ حرام ، چوپائے درکنار کٹکھنے کتے سے ناجائز‘‘۔ (فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ 664، رضافاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-899
تاریخ اجراء: 01ربیع الٓاخر1447ھ/25ستمبر 2025ء