
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
یوکے میں لوگوں کے گھروں میں پھلوں کے درخت لگے ہوتے ہیں جن کی شاخیں ساتھ والے گھر میں آ جاتی ہیں۔ ان درختوں کے پھل نہ تو ان کے اپنے مالک توڑتے ہیں اور نہ ہی پڑوسی کی طرف سے کوئی توڑتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پھل گر کر ضائع ہو جاتے ہیں۔ اب اگر پڑوسی اپنی طرف گری ہوئی ان شاخوں سے پھل اٹھا لیں تو کیا حکم ہو گا؟ رہنمائی فرما دیں۔
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگر درختوں سے پھل توڑنے یا گرے ہوئے پھلوں کے کھانے کی مالک کی طرف سے صراحتایادلالتا(عرف وعادت کی وجہ سے) اجازت ہو یا معلوم ہو کہ مالک کو ناگوار نہیں ہوگا تو کھاسکتے ہیں، ورنہ نہیں۔
فتاوی عالمگیری میں ہے
إذا مر الرجل بالثمار في أيام الصيف و أراد أن يتناول منها و الثمار ساقطة تحت الأشجار، فإن كان ذلك في المصر لا يسعه التناول إلا إذا علم أن صاحبها قد أباح إما نصا أو دلالة بالعادة، و إن كان في الحائط، فإن كان من الثمار التي تبقى مثل الجوز وغيره لا يسعه الأخذ إلا إذا علم الإذن، و إن كان من الثمار التي لا تبقى تكلموا فيه قال الصدر الشهيد رحمه اللہ تعالى و المختار أنه لا بأس بالتناول ما لم يتبين النهي، إما صريحا أو عادة، كذا في المحيط. والمختار أنه لا يأكل منها ما لم يعلم أن أربابها رضوا بذلك، كذا في الغياثيۃ۔۔۔ و أما إذا كانت الثمار على الأشجار فالأفضل أن لا يأخذ من موضع ما إلا بالإذن إلا أن يكون موضعا كثير الثمار يعلم أنه لا يشق عليهم أكل ذلك فيسعه الأكل، و لا يسعه الحمل
ترجمہ: اگر کوئی شخص گرمیوں کے دنوں میں پھلوں کے پاس سے گزرے اور چاہے کہ ان میں سے کچھ لے لے، اور وہ پھل درختوں کے نیچے گرے ہوئے ہوں، تو اگر وہ شہر کے اندر ہے تو اس کے لیے لینا جائز نہیں ہوگا، مگر اس وقت جب اسے معلوم ہو کہ مالک نے اجازت دی ہے یا تو صراحتاً یا دلالۃً وہاں کی عادت سے معلوم ہو۔ اور اگر وہ باغ میں ہو، تو اگر وہ پھل ایسے ہیں جو باقی رہتے ہیں، جیسے اخروٹ وغیرہ، تو انہیں لینا جائز نہیں، جب تک اجازت کا علم نہ ہو۔ اور اگر وہ پھل ایسے ہیں جو باقی نہیں رہتے (یعنی جلد خراب ہو جاتے ہیں) تو اس بارے میں فقہا نے کلام کیا ہے۔ صدر شہید رحمہ اللہ نے فرمایا: مختار یہ ہے کہ ان کو لینے میں حرج نہیں، جب تک واضح طور پر منع ثابت نہ ہو، چاہے صراحۃً یا عرفاً، جیسا کہ محيط میں ہے۔ (البتہ) مختار یہ ہے کہ جب تک معلوم نہ ہو کہ مالکان اس پر راضی ہیں، تب تک نہ کھائے، اسی طرح غیاثیہ میں ہے۔ اور اگر پھل درختوں پر لگے ہوں تو بہتر یہ ہے کہ کسی جگہ سے نہ لے مگر اجازت کے ساتھ، مگر یہ کہ وہ جگہ ایسی ہو جہاں پھل بہت زیادہ ہوں اور یہ معلوم ہو کہ ان کا کھانا مالکان پر دشوار نہیں، تو اس وقت کھا سکتا ہے، لیکن ساتھ لے جانا جائز نہیں۔ (فتاوی عالمگیری، جلد 5، صفحہ 339، 340، مطبوعہ: کوئٹہ)
بہارِ شریعت میں ہے ”درختوں سے پھل توڑ کر کھانے کی اجازت نہیں، مگر جبکہ پھلوں کی کثرت ہو معلوم ہو کہ توڑ کر کھانے میں بھی مالک کو ناگواری نہیں ہو گی تو توڑ کر بھی کھا سکتا ہے، مگر کسی صورت میں یہ اجازت نہیں کہ وہاں سے پھل اٹھا لائے۔ ان سب صورتوں میں عرف و عادت کا لحاظ ہے اور اگر عرف و عادت نہ ہو یا معلوم ہو کہ مالک کو ناگواری ہو گی تو کھانا جائز نہیں۔“ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 380، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4244
تاریخ اجراء: 11جمادی الثانی1446ھ/14دسمبر2024ء