صدقہ کی نیت سے پرندوں کو دانہ ڈالنا کیسا؟

چھت پر صدقہ کی نیت سےپرندوں کے لئے دانہ ڈالنا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

صدقہ کی نیت سے چھت پر روٹی، دانہ ڈالیں اور اسے کھانے والے پرندوں میں کوے اور چیل بھی آجاتے ہوں حالانکہ یہ تو فاسق کہلاتے ہیں تو کیا اس صورت میں دانہ ڈالنا صحیح ہوگا یا نہیں جبکہ میری نیت خاص کووں یا چیلوں کی نہیں، بلکہ عام پرندوں کو کھلانے کی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جی ہاں! چھت پر جہاں پرندے دانے وغیرہ کھا لیں، وہاں دانےوغیرہ ڈالنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اگر ثواب کی نیت سے ڈالیں گے تو اجر ملے گاپھر اگر ان پرندوں میں چیل اور کوے بھی آ کر کھا لیں تو بھی کوئی حرج نہیں، کیوں کہ ممانعت اس وقت ہے جب خاص چیل اور کووں کو کھلایا جائے یا ان کی نیت سے دانہ وغیرہ ڈالا جائے کیوں کہ یہ بحکم حدیث فاسق ہیں اور کووں کی دعوت کرنا ہندوؤں کی رسم ہے۔ تاہم! اگر دانہ ڈالنے میں عام پرندوں کی نیت ہو، خاص ان کی نیت نہ ہو، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے درخت لگایا، کھیت بویا، اب اس سے جو چرند پرند کھائے گا، تو بمطابقِ حدیث لگانے والے کو ثواب ملے گا، ظاہر ہے اس درخت میں سے کوا وغیرہ فاسق پرندے بھی کھاسکتے ہیں مگر چونکہ درخت لگانے والے خاص ان کی نیت نہیں کرتے اس لئے اس کی ممانعت نہیں، تو اسی طرح چھت پر دانہ ڈالنے والے کی عمومی نیت کے سبب اسے ثواب ملے گا اگر چہ اس میں سے کچھ دانے  چیل اور کوے بھی کھا جائیں مگر چونکہ ان کو ڈالنا مقصود نہیں تو ممانعت بھی نہیں۔

صحیح بخاری وغیرہ میں ایک طویل حدیث پاک کے آخر میں ہے:

 قالوا: يا رسول اللہ، وإن لنا في البهائم أجرا؟ قال: «في كل كبد رطبة أجر»

ترجمہ: صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم! ہمارے لیے جانوروں میں بھی اجر ہے؟ تو رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر تر جگر میں اجر ہے۔ (صحیح بخاری، جلد 3، صفحہ 111،دار طوق النجاۃ، بیروت)

عمدۃ القاری میں ہے

 وأما قوله: (في كل كبد)، فمخصوص ببعض البهائم مما لا ضرر فيه لأن المأمور بقتله كالخنزير لا يجوز أن يقوى ليزداد ضرره، و كذا قال النووي: إن عمومه مخصوص بالحيوان المحترم، و هو ما لم يؤمر بقتله فيحصل الثواب بسقيه، ويلتحق به إطعامه وغير ذلك من وجوه الإحسان إليه 

ترجمہ: حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کا فرمان: "ہر تر جگر میں" یہ ان جانوروں کے ساتھ خاص ہے جن سے ضرر نہیں ہوتا کیونکہ جن جانوروں کو قتل کرنے کا حکم ہے جیسے خنزیر تو یہ جائز نہیں کہ انہیں کھلا پلا کر قوی کیا جائے کہ ان کا ضرر بڑھے۔ اور اسی طرح امام نووی علیہ الرحمۃنے فرمایا:اس حدیث پاک کا عموم حیوانِ محترم کے ساتھ خاص ہے اور حیوان محترم وہ ہے کہ جسے قتل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا پس اسے پانی پلانے سے ثواب حاصل ہو گا اور کھانا کھلانا وغیرہ احسان کی تمام صورتیں اس کے ساتھ لاحق ہوں گی (یعنی ان پربھی ثواب حاصل ہوگا)۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج 12، ص 207، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

حدیث پاک میں ہے

خمس فواسق، یقتلن فی الحل والحرم: الحیۃ ، و الغراب الابقع، و الفأرة،و الکلب العقور، و الحدأة

 ترجمہ: پانچ جانور  فاسق ہیں، ان کو حِل اور حرم میں قتل کیا جائے گا: سانپ، کوا، چوہا، کٹکھنا (بہت زیادہ کاٹنے والا، پاگل) کتا، اور چیل۔(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث 3087، ج 02، ص 1031، دار إحياء الكتب العربية)

امام اہل سنت، مجدد دین و ملت، الشاہ امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہوا: "اکثر دیکھا گیا کہ لوگ بکرا منگا کر اور اس کو لڑکے یا لڑکی کے نام ذبح کرکے کچھ گوشت چیل، کوا کو کھلاتے ہیں، اور کچھ فقراء کو تقسیم کرتے ہیں، یہ فعل کس حد تک صحیح ہے؟" اس کے جواب میں امام اہل سنت علیہ الرحمہ نے فرمایا:" چیل، کوّوں کو کھلانا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا، یہ فاسق ہیں، اور کوّوں کی دعوت رسمِ ہنود۔" (فتاویٰ رضویہ، ج 20، ص 588، 590، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

مسند احمد میں ہے

عن أبي الدرداء، أن رجلا، مر به و هو يغرس غرسا بدمشق فقال له: أتفعل هذا وأنت صاحب رسول الله صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم؟ فقال: لا تعجل علي سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم يقول:»من غرس غرسا لم يأكل منه آدمي، ولا خلق من خلق الله عز وجل إلا كان له صدقة

ترجمہ: ابو دَرْدَاء رضی اللہ عنہ دمشق میں ایک جگہ درخت لگا رہے تھے، ایک شخص ان کے قریب سے گزرا تو اس نے ان سے کہا کہ صحا بیِ رسول(صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم)جیسا منصب حاصل ہونے کے باوجود آپ یہ کام کررہے ہیں! تو انہوں نے اس سے کہا مجھ پر (یعنی میرے بارے میں رائے قائم کرنے میں) جلد بازی مت کرو کیونکہ میں نے رسولِ پاک صلَّی اللہ تعالی علیہ و اٰلہٖ و سلَّم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جس نے درخت لگایا تو اس میں سے آدمی یااللہ عزوجل کی مخلوق میں سے جو بھی کھائے گا وہ اس کے لئے صدقہ شمار ہو گا۔ (مسند احمد، جلد 45، صفحہ 498، مؤسسۃ الرسالۃ)

آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

ما من مسلم يغرس غرساً، أو يزرع زرعاً، فيأكل منه طير أو إنسان أو بهيمة، إلا كان له به صدقة

ترجمہ: جو بھی مسلمان کوئی پودا لگاتاہے یاکوئی کھیتی اگاتا ہے، پھر اس سے کوئی پرندہ یا انسان یا چوپایہ کھاتا ہے تو اسے اس کے بدلے صدقے کا اجر ملتاہے۔ (صحیح بخاری، جلد 3، صفحہ 103، دار طوق النجاۃ، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4242

تاریخ اجراء: 24ربیع الاول1447ھ/18ستمبر2025ء