
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ والدین بچے کا قرآن پاک مکمل ہونے پر ”معلِّم“ یا ”قاری صاحب“ کو سوٹ اور دیگر چیزیں تحفہ میں پیش کرتے ہیں۔ کیا اُن کا یہ تحفے قبول کرنا شرعاً درست ہے؟
سائل: قاری محمد ارشد
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جب بچہ قرآن حکیم کو بطورِ ناظرہ یا حفظ مکمل کرتا ہے، تو عموماً بچے کے والد یا دیگر رشتہ داروں کی طرف سے بچے کے معلم یا قاری صاحب کو تحفہ وہدیہ کے طور پر سوٹ،مٹھائی کا ڈبہ یا کوئی بھی چیز ہدیہ دی جاتی ہے۔اگر معلِّم کی طرف سے کوئی سوال یا اِصرار نہ ہو،بلکہ محض اُن کی خدمتِ قرآن کے جذبے،کوشش اور محنت کو سراہتے ہوئے ہدیہ پیش کیا جائے تو معلم کا اُس ہدیہ کو قبول کرنا یقیناً جائز ہے کہ یہ ہدیہ بچے کے والد وغیرہ کی طرف سے استاد کے اِکرام اور ان کی محنت کی قدردانی کا اظہار ہے اور اِس پر اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید ہے۔
علامہ ابو المَعَالی بخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 616ھ / 1219ء) لکھتےہیں:
أب الصبي إذا أهدى إلى معلم الصبي أو إلى مؤدبه في العيد إن لم يسأل ولم يلح عليه لا بأس به؛ لأنه بر وبر المعلم مستحب۔
ترجمہ: بچے کا والد جب عید کے موقع پر بچے کے معلم یا مؤدب کو ہدیہ دے اور معلم نے اس کا سوال نہ کیا ہو اور نہ ہی اس پر اصرار کیا ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں؛ کیونکہ یہ نیکی ہے اور معلم کے ساتھ نیکی کرنا مستحب ہے۔ (المحیط البرھانی، جلد05، في الهدايا و الضيافات، صفحہ 368، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)
علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1252ھ / 1836ء)نے لکھا:
إن أهدي إليهم تحببا وتوددا لعلمهم و صلاحهم فالأولى القبول۔
ترجمہ: اگر معلم وغیرہ کو اُن کے علم اور نیکی کے باعث، بطورِ محبت و مودت ہدیہ دیا جائے تو قبول کر لینا اولیٰ ہے۔(رد المحتار مع در مختار، جلد 16، مطلب فی هدية المفتى، صفحہ 339 ، مطبوعہ دار الثقافۃ والتراث، دمشق)
فتاوٰی عالَم گیری میں ہے:
سئل ابن مقاتل عما يهدي أبو الصبي إلى المعلم أو إلى المؤدب في النيروز أو في المهرجان أو في العيد، قال: إذا لم يسأل ولم يلح عليه في ذلك فلا بأس به، كذا في الحاوي للفتاوى۔
ترجمہ: امام ابنِ مقاتل سے پوچھا گیا کہ اگر بچے کا والد نوروز، مہرجان یا عید کے موقع پر معلم یا مؤدب کو ہدیہ پیش کرے تو کیا حکم ہے، تو آپ نے جواب دیاکہ اگر اس نے اس کا سوال نہ کیا ہو اور نہ ہی اس پر اصرار کیا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ”الحاوی للفتاویٰ“ میں اسی طرح ہے۔ (الفتاوى الھندیۃ، جلد 04، صفحہ 403، مطبوعہ کوئٹہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9483
تاریخ اجراء: 03 ربیع الاول1447ھ/ 28 اگست 2025ء